کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 772
اتحاد بڑھائے۔ ہمارے اس موجودہ زمانے میں تو اس قسم کی کارروائیاں فوراً ہی طشت ازبام ہو جاتی ہیں ، لیکن اس زمانے میں بایزید خان یلدرم کے بے خبر رہنے پر ہم کو کوئی تعجب نہ ہونا چاہیے۔ ادھر قیصر قسطنطنیہ اپنی ان خفیہ ریشہ دوانیوں میں مصروف تھا۔ ادھر آرمینیا و کردستان و آذربائیجان کے مسلمان فرماں روا خود بھی اس زمانہ کی آب و ہوا کے اثر سے ایشیائے کوچک کے مغربی حصے کو دھمکی دے رہے تھے۔ آخر یہ تمام اسباب مل ملا کر باعث اس کے ہوئے کہ ترکمانوں نے ایشیائے کوچک یعنی بایزید خان یلدرم کے ایشیائی علاقہ میں پیش قدمی شروع کر دی۔ بایزید خان یلدرم اگر چاہتا تو ایران و خراسان وغیرہ کی طرف متوجہ ہو کر ایشیائے کوچک میں فتوحات عظیم حاصل کر لیتا، لیکن چونکہ عثمان خان اور اس کی اولاد میں دینداری بدرجہ اتم موجود تھی۔ اس لیے وہ مسلمانوں سے لڑنے اور مسلمانوں کے مقبوضہ ممالک کو اپنے قبضہ میں لانے کو اچھا نہیں جانتے تھے۔ شروع ہی سے سلطنت عثمانیہ کی حکمت عملی یہ رہی تھی کہ عیسائیوں کے خلاف جہاد کر کے جہاں تک ممکن ہو عیسائی ممالک کو فتح کیا جائے اور اسلامی تہذیب اور اسلامی مذہب کی اشاعت سے یورپ کو جواب تک مسلمانوں کے لیے باعث تکلیف بنا رہا تھا شائستہ بنایا جائے۔ چنانچہ بایزید خان یلدرم بھی اپنے بزرگوں کی اسی حکمت عملی پر کار بند تھا اور مسلمانوں سے لڑنے کا اس کو کوئی شوق نہ تھا۔ اب ایشیائے کوچک میں جب کہ ترکمانوں نے حملہ کر کے بروصہ و انگورہ کے درمیان بایزید خان یلدرم کی مقامی ایشیائی فوج کو شکست دے کر فتنہ عظیم برپا کر دیا تو بایزید خان مجبوراً یورپ کے عیسائیوں کو چھوڑ کر ۷۹۵ھ میں ایشیائے کوچک کی طرف روانہ ہوا اور یہاں آتے ہی دشمنوں کو شکست دے دے کر گرفتار و اسیر اور قتل کیا۔ یہ فتنہ چونکہ ایشیائے کوچک کے جنوبی و مغربی علاقے کی طرف سے پیدا ہوا تھا۔ لہٰذا بایزید نے اس طرف کی ریاستوں کو اپنی سلطنت میں شامل کر کے بخوبی امن و امان قائم کیا اور اسی سال مصر کے عباسی خلیفہ مستعصم باللہ بن محمدا براہیم کے پاس تحف و ہدایا بھیج کر اس سے پہلے کے عثمانی فرماں رواؤں کو بھی اگرچہ مورخین نے سلطان ہی کے لقب سے یاد کیا ہے مگر درحقیقت وہ امیر کہلاتے تھے۔ مثلاً امیر عثمان خان، امیر ار خان، امیر مراد خان وغیرہ۔ بایزید خان نے ۷۹۵ھ میں خلفائے عباسیہ کی مذہبی عظمت کو مد نظر رکھ کر جو تمام عالم اسلام میں مسلم تھی عباسی خلیفہ سے خطاب حاصل کرنا ضروری سمجھا۔ حالانکہ وہ جانتا تھا کہ عباسی خلیفہ مصر کے مملوک فرماں روا کی حفاظت و نگرانی میں اپنے دن بسر کر رہا ہے۔ غرض کہ بایزید خان یلدرم کو سلاطین عثمانیہ کا پہلا سلطان کہا جا سکتا ہے۔ یورپی مورخین کا قول ہے کہ سلطان بایزید خان یلدرم باوجود بہادر اور سپاہی منش انسان ہونے کے عثمانیوں میں سب سے پہلا فرماں روا ہے جو یورپ کی بداعمالیوں اور برے مشیروں کی صحبت سے متاثر