کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 769
سے دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ دشمن جب حملہ آور ہو گا تو اس کے گھوڑے اونٹوں کو دیکھ کر بدکیں گے اور اس طرح ان کی صفوں کا نظام قائم نہ رہ سکے گا اس رائے کو سن کر سلطان کے بڑے بیٹے بایزید یلدرم نے مخالفت کی اور کہا کہ یہ ضعف اور خوف کی علامت ہے ہم ایسی کمزور اور پست ہمتی پیدا کرنے والی تدبیر پر ہرگز عمل کرنا مناسب نہیں سمجھتے، ہم کو دشمن سے کھلے میدان میں دو دو ہاتھ کرنے ہیں ۔ غرض اسی قسم کی باتیں پیش ہوتی رہیں اور سلطان اپنی کوئی مستقل رائے قائم نہ کر سکا۔ ادھر سلطان نے دیکھا کہ ہوا بڑے زور سے چل رہی ہے دشمن کی پشت کی جانب سے ہوا کے جھونکے آتے ہیں اور مسلمانوں کے چہروں پر آندھی اور غبار کے تھپیڑے لگتے ہیں ۔ یہ علامت مسلمانوں کے لیے بے حد نقصان رساں تھی اپنی قلت تعداد اور کمزوری کو دیکھ کر سلطان مراد نے خدائے تعالیٰ کی جناب میں دعا و التجا کرنی شروع کی صبح تک رو رو کر خدائے تعالیٰ سے دعائیں مانگتا رہا کہ الٰہی کفر و اسلام کا مقابلہ ہے تو ہمارے گناہوں پر نظر نہ کر بلکہ اپنے رسول عربی اکرم اور دین متین کی لاج رکھ لے، ان دعاؤں نے رحمت باری تعالیٰ کو اپنی طرف متوجہ کیا اور صبح ہوتے بارش شروع ہوئی گرد و غبار دب کر موسم نہایت خوش فضا ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد بارش اور ہوا رکی، طرفین سے صفوف جنگ آراستہ ہوئیں ۔ سلطان مراد خان نے اپنے یورپی علاقے کے جاگیرداروں کی فوج کے دستے میمنہ پر متعین کیے اور شہزادہ بایزید یلدرم کو ان کی سرداری سپرد کی۔ میسرہ میں ایشیائی علاقوں کی فوج متعین کر کے شہزادہ یعقوب کو اس کی سرداری پر مامور کیا۔ قلب میں سلطان مراد خان خود اپنے باڈی گارڈ کے ساتھ قائم ہوا اور بے قاعدہ سواروں ، پیدلوں اور قراولی جنگ کرنے والے دستوں کو آگے بطور ہر اول مختلف ٹولیوں میں بڑھا دیا۔ ادھر عیسائی لشکر کے قلب کی فوج سرویا کے بادشاہ لازرس کے زیر کمان تھی اور اس کا بھتیجا دست راست کا افسر اور شاہ بوسینیا دست چپ کی فوج کا سپہ سالار تھا۔ دونوں جانب کی فوجیں نہایت مستعدی جوش و خروش کے ساتھ آگے بڑھیں اور ایک دوسرے کے قریب پہنچ کر مصروف جنگ ہو گئیں دوپہر تک نہایت پامردی اور جو انمردی کے ساتھ طرفین نے جم کر داد شجاعت دی اور فتح و شکست کی نسبت کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔ آخر سلطان کے بیٹے یعقوب کی فوج میں آثار پریشانی ظاہر ہوئے اور وہ قلب کی جانب پسپا ہونے لگی یہ رنگ دیکھ کر سلطان مراد خان خود اس طرف متوجہ ہوا اور پرا گندہ ہونے والی صفوں کو پھر درست کر کے مقابلہ پر جما دیا۔ اس روز سلطان مراد خان ایک آہنی گرز ہاتھ میں لیے ہوئے تھا اور وہ اپنے اسی گرز سے ہر مقابلہ پر آنے والے کو مار کر گرا دیتا تھا۔ مقابلہ خوب تیزی سے جاری تھا اور میدان میں کشتوں کے پشتے لگ رہے تھے کہ عیسائی لشکر پر شکست کے علامات ظاہر ہونے شروع ہوئے اور اسلامی بہادروں کے سامنے عیسائی فوج کے قدم