کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 768
ہو کر سلطنت عثمانیہ کے استیصال پر مستعد ہو چکی تھیں ۔ ۷۹۱ھ میں سلطان مراد خان کے پاس بروصہ میں خبر پہنچی کہ وہ فوج جو بیس ہزار کی تعداد میں رومیلیا کے اندر موجود تھی عیسائی لشکر کے مقابلے میں برباد ہو گئی۔ یعنی سرویا اور بلگیریا کی فوجوں نے حملہ کر کے اور عہد اطاعت کو بالائے طاق رکھ کر بیس ہزار ترکوں میں سے پندرہ ہزار کو جام شہادت پلا دیا ہے اور تمام یورپی علاقہ اور دارالسلطنت ایڈریا نوپل خطرہ میں ہے۔ اس خبر کو سنتے ہی سلطان مراد خان بروصہ چل کر سمندر کو عبور کر کے ایڈریا نوپل پہنچا اور وہاں سے تیس ہزار کا ایک لشکر اپنے سپہ سالار علی کو دے کر آگے روانہ کیا کہ دشمنوں کے لشکر کی پیش قدمی کو روکے اور خود ایڈریا نوپل میں ضروری انتظامات کی طرف متوجہ ہوا۔ ۷۹۲ھ میں علی پاشا نے بلگیریا کے بادشاہ سسوال کو مغلوب و مجبور کر کے دوبارہ اطاعت پر آمادہ کر لیا۔ عیسائی ممالک کے لشکروں کو مرویہ کے بادشاہ نے سرویہ اور بوسینیا کی سرحد پر مقام کسودا میں جمع کیا اور یورپ کے اس لشکر عظیم نے بڑی احتیاط کے ساتھ اپنا کیمپ قائم کر کے سلطان مراد کو خود پیغام جنگ دیا۔ مراد خان بھی اب پورے طور پر ایک فیصلہ کن جنگ کے لیے تیار ہو چکا تھا۔ چنانچہ وہ خود اپنی تمام فوج کا سپہ سالار بن کر ایڈریا نوپل سے روانہ ہوا اور پہاڑی دشوار گزار دروں کو طے کرتا ہوا کسودا کے میدان میں نمودار ہوا۔ اس میدان میں ایک چھوٹی سی ندی سنتزا نامی بہتی ہے اس کے شمالی جانب عیسائی کیمپ تھا۔ دوسری جانب ۲۶ اگست ۱۳۸۹ء مطابق ۷۹۲ھ کو سلطان مراد نے جا کر قیام کیا۔ عیسائیوں نے جب مسلمانوں کے لشکر کو اپنے آپ سے تعداد اور سامان میں چوتھائی کے قریب دیکھا تو ان حوصلے اور بھی بڑھ گئے۔ عیسائی اس میدان میں پہلے سے مقیم اور تازہ دم تھے۔ مسلمان یلغار کرتے ہوئے وہاں پہنچے تھے اور دشوار گزار راستوں نے ان کو تھکا دیا تھا۔ عیسائیوں کے لیے یہ علاقہ نیا اور اجنبی نہ تھا کیونکہ اس علاقہ کے باشندے ان کے دوست اور ہم قوم وہم مذہب تھے اور ہر طرح معین و مدد گار تھے لیکن مسلمانوں کے لیے یہ ملک بالکل غیر اور اجنبی تھا۔ جس روز شام کو سلطانی لشکر میدان میں پہنچا ہے اس کی شب میں دونوں لشکروں میں مجالس مشورت منعقد ہوتی رہیں عیسائیوں میں سے بعض سرداروں کی رائے ہوئی کہ اسی وقت رات کو شب خون مار کر مسلمانوں کا کام تمام کر دیا جائے، لیکن چونکہ عیسائیوں کو اپنی فتح کا کامل یقین تھا۔ اس لیے ان کے دوسرے سرداروں نے اس رائے کی محض اس لیے مخالفت کی کہ رات کی تاریکی میں مسلمانوں کے ایک بڑے حصے کو بچ کر نکل جانے اور بھاگنے کا موقع مل جائے گا حالانکہ ہم ان میں سے ایک متنفس کو ادھر عیسائیوں کی کثرت دیکھ کر مسلمان مرعوب تھے، سلطان نے مجلس مشورت منعقد کی تو بعض سرداروں نے مشورہ دیا کہ بار برداری کے اونٹوں کی قطار فوج کے سامنے نصب کی جائے تاکہ زندہ فصیل کا کام دے سکے۔ اس