کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 766
بھی حکومت کی قابلیت نہیں رکھتا اور میرے اوپر بہت ظلم کرتا ہے اور اسی طرح آپ کا باپ بھی آپ کی نسبت دوسرے بھائیوں کے مقابلے میں عدل و انصاف سے کام نہیں لیتا یہ موقع محض اتفاق سے ہاتھ آ گیا ہے۔ میں نے بھی اپنے لشکر کے ایک معقول حصہ کو اپنا شریک بنا لیا ہے آپ بھی اپنے ساتھ یہاں کافی فوج رکھتے ہیں آؤ پہلے ہم دونوں مل کر قسطنطنیہ کو فتح کر کے موجودہ قیصر کو اسیر کر لیں ۔ اس طرح جب تخت قسطنطنیہ مجھ کو مل جائے گا تو پھر ہم دونوں مل کر سلطان مراد خان کا مقابلہ کر سکیں گے اور آپ ایڈریا نوپل میں بآسانی تخت نشین ہو کر ترکوں کے سلطان بن جائیں کے یہ احمق شاہزادہ عیسائی شہزادے کے فریب میں آ گیا۔ اس نے بلا تامل اپنی فوج لے کر اور عیسائی شہزادے کے ساتھ ہو کر قسطنطنیہ کی طرف کوچ کر دیا اور دونوں نے جا کر قسطنطنیہ کا محاصرہ کر کے اپنی اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا۔ مراد خان نے جب اس بغاوت و سرکشی کا حال سنا تو وہ بہت جلد ایشیائے کوچک سے فارغ ہو کر ایڈریا نوپل آیا یہ دونوں شہزادے قسطنطنیہ کے قریب سے ہٹ کر مغرب کی جانب ایک ندی کے پار جا پڑے اور سلطان مراد خان کے مقابلے کی تیاریاں کرنے لگے مراد خان نے ایڈریا نوپل پہنچتے ہی قیصر پلیلوگس کو لکھا کہ فوراً میری خدمت میں حاضر ہو کر جواب دو کہ یہ نامعقول حرکت کیوں ظہور میں آئی اور تم نے اپنے بیٹے کو میرے بیٹے کے پاس بھیج کر کیوں یہ فتنہ برپا کرایا۔ قیصر اس سلطانی پیغام کے پہنچنے سے کانپ گیا اور اس نے خوف کی وجہ سے اپنی بے گناہی اور لاعلمی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے یہ بھی لکھا کہ ان باغی شہزادوں کے گرفتار کرنے اور ان کو ان کی نالائقی کی سزا دینے میں میں آپ کا ہر طرح شریک ہوں اور میری خواہش ہے کہ باغیوں کو گرفتار کر کے قتل کیا جائے۔ اس جواب کو سن کر سلطان خود ان باغیوں کی طرف بڑھا اور ندی کے اس کنارے پر خیمہ زن ہو کر رات کے وقت تنہا اس طرف گیا اور باغیوں کے کیمپ میں پہنچ کر آواز دی کہ تم میں سے جو شخص باغیوں کا ساتھ چھوڑ کر اب بھی ہمارے ساتھ شامل ہو جائے گا اس کی خطا معاف کر دی جائے گی۔ سلطان کی آواز پہچان کر تمام سپاہی اور سردار جو شہزادے کے ساتھ تھے سلطان کے گرد آکر جمع ہو گئے اور صرف چند ترکوں اور چند عیسائیوں کے ساتھ یہ دونوں شہزادے وہاں سے فرار ہوئے۔ آخر دونوں مع اپنے ہمراہیوں کے گرفتار ہو کر آئے اور سلطان کی خدمت میں پیش کیے گئے۔ سلطان مراد خان نے اپنے بیٹے کو اپنے سامنے بلا کر اندھا کرا دیا اور پھر اس کے قتل کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ وہ قتل کر دیا گیا۔ قیصر کے بیٹے کو پابز بخیر قیصر کے پاس بھجوا دیا اور لکھا کہ اس کو اب تم خود اپنے ہاتھ سے سزا دو جس طرح کہ میں نے اپنے بیٹے کو خود سزا دی ہے قیصر کے لیے یہ بڑا نازک موقع تھا۔ اگر وہ بیٹے کو سزا دیتا ہے تو محبت پدری مانع ہوتی ہے اور اگر سزا نہیں دیتا تو سلطان