کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 764
ار خان نے اپنے باپ کی وصیت اور حکمت عملی پر خوب احتیاط کے ساتھ عمل کیا۔ اس نے اپنے باپ کی قائم کی ہوئی سلطنت کو وسعت دے کر یورپ کے ساحل تک پہنچا دیا۔ ار خان کی تمام تر توجہ یورپ کی جانب مائل تھی اس کا ایک ثبوت یہ واقعہ بھی ہے کہ جب اس کے بیٹے سلیمان خان کا بروصہ کے قریب باز کے شکار میں گھوڑے سے گر کر انتقال ہوا تو اس نے سلیمان خان کو بروصہ میں دفن نہیں کیا۔ بلکہ اس کی لاش کو درہ دانیال کے اس طرف ساحل یورپ میں جو سلیمان خان کا فتح کیا ہوا عثمانیہ سلطنت کا مقبوضہ تھا لے جا کر دفن کیا۔ تاکہ ترکوں کو ساحل یورپ کے چھوڑنے اور وہاں سے پیچھے ہٹنے کا خیال پیدا نہ ہو۔
مراد خان اول
اپنے بڑے بیٹے سلیمان خان کی وفات کے بعد سلطان ار خان نے اپنے چھوٹے بیٹے مراد خان کو اپنا ولی عہد بنایا تھا۔ چنانچہ ار خان کی وفات کے بعد مراد خان جس کی عمر اس وقت چالیس سال کی تھی ۷۶۱ھ میں تخت نشین ہوا۔ مراد خان کی خواہش یہی تھی کہ یورپ میں اپنی سلطنت کو وسعت دے۔ لیکن تخت نشینی کے بعد ہی قرمان کی ترکی سلجوقی ریاست کی بغاوت فرو کرنے میں اس کو ایشیائے کوچک کے مشرقی علاقے کی طرف مصرورف رہنا پڑا اس کے بعد ۷۶۲ھ میں اپنی فوج لے کر ساحل یورپ پر اترا اور ایڈریا نوپل (اور نہ) کو فتح کر کے اپنا دارالسلطنت بنایا۔ اس وقت یعنی ۷۶۳ھ سے فتح قسطنطنیہ تک جو سلطان محمد خان ثانی کے عہد میں ہوئی ایڈریا نوپل سلطنت عثمانیہ کا دارالسلطنت رہا۔ ایڈریا نوپل کی فتح کا حال سن کر بلگیریا اور سرویا والوں کو فکر پیدا ہوئی۔ قسطنطنیہ کے قیصر نے پوپ روم کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ آپ جہاد کا وعظ کریں اور مسلمانوں کی روک تھام کے لیے فوجیں بھیجیں چنانچہ پوپ نے فوجیں روانہ کیں ۔ ادھر ہنگری اور بوسینیا وغیرہ کے عیسائی سلاطین بھی سرویا اور بلگیریا کی طرح مستعد ہو گئے اور ان متحدہ عیسائی افواج نے ۷۶۵ھ میں ایڈریا نوپل کی طرف کوچ کیا۔ مراد خان نے اپنے سپہ سالار لالہ شاہین نامی کو بیس ہزار فوج کے ساتھ روانہ کیا۔ ایڈریا نوپل سے دو منزل آگے عیسائی لشکر عظیم سے جس کی تعداد لاکھوں تک پہنچی ہوئی تھی مقابلہ ہوا۔ اس معرکہ میں عیسائیوں کی اس متحدہ افواج نے مٹھی بھر مسلمانوں سے شکست فاش کھائی اور فرار کی عار کو قرار پر ترجیح دے کر بھاگتے ہوئے بہت سے مسلمانوں کی تلواروں سے مقتول اور بہت سے اسیر و دست گیر ہوئے۔ لالہ شاہیں نے آگے بڑھ کر بہت سا ملک فتح کیا اور تھریس و رومیلیا کے صوبوں میں فوجی جاگیرداری کے قدیمی دستور کے موافق اپنے ہم قوم ترکوں اور مسلمان سرداروں کو آباد کرنا شروع کیا۔ کئی برس تک سلطان مراد خان اس ملک کو مضبوط کرنے اور اپنی حکومت کے مستحکم بنانے میں مصروف رہا۔ جنگی قیدیوں اور عیسائی رعایا کے نو عمر لڑکوں کے ذریعہ