کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 763
رکھتے تھے۔ اتفاقاً آ بنائے باسفورس کے قریب وینس اور جنیوا والوں میں معرکۂ کارزار گرم ہوا۔ اس طرف کے ساحلی صوبہ کا عامل و گورنر سلطان ار خان کا بیٹا سلیمان خان تھا۔
ایک روز سلیمان خان جنیوا والوں کی ایک کشتی میں صرف چالیس آدمیوں کے ہمراہ سوار ہو کر رات کے وقت درہ دانیال کو عبور کر کے یورپی ساحل پر اترا اور ساحل کے اس قلعہ کو جو وینس والوں کے لیے موجب تقویت تھا فتح کر لیا اس کے بعد فوراً کئی ہزار ترک اس قلعہ میں اپنے شہزادے کے پاس پہنچ گئے۔ جس سے جنیوا والوں کو بڑی مدد پہنچی۔ یہ حال معلوم ہو کر قیصر قسطنطنیہ کو سخت ملال ہوا وہ یہ ارادہ ہی کر رہا تھا کہ سلطان ار خان کو لکھے کہ سلیمان کو قلعہ چھوڑ دینے کا حکم دیں کہ اتنے میں خود قیصر کے دارالسلطنت میں اس کے دوسرے داماد نے علم بغاوت بلند کیا اور قیصر کو اپنا دارالسلطنت بچانا دشوار ہو گیا اس نے فوراً سلطان ار خان سے امداد طلب کی۔ سلطان ار خان نے اپنے بیٹے سلیمان خان کو لکھا کہ روپیہ لے لو اور یہ قلعہ چھوڑ کر واپس چلے جاؤ۔ سلیمان خان اس پر آمادہ تھا کہ اتنے میں سخت زلزلہ آیا اور شہر گیلی پولی کی فصیل گر گئی اور شہر والے زلزلہ سے خائف و ترسان ہوئے۔ اس زلزلہ کو تائید غیبی سمجھ کر عضدی بیگ اور غازی فاضل دو سرداروں نے جو سلیمان خان کے ہمراہ تھے گری ہوئی فصیل کو طے کر کے اور شہر میں داخل ہو کر گیلی پولی پر قبضہ کر لیا۔ گیلی پولی پر قبضہ کرنے کے بعد سلیمان خان نے فوراً فصیلوں کی مرمت کرائی اور ایک مضبوط ترکی فوج وہاں قائم کر دی۔ قیصر کو جب یہ خبر پہنچی تو اس نے ار خان کو شکایت لکھی۔ ار خان نے جواب میں لکھا کہ میرے بیٹے نے گیلی پولی کو بزور شمشیر فتح نہیں کیا بلکہ زلزلہ کے اتفاقی حادثہ نے اس کے لیے شہر پر قبضہ کرنے کا موقع پیدا کر دیا ہے اور میں اس کو وہاں سے واپس بلانے کے لیے لکھوں گا اور اصل واقعات کو بھی تحقیق کروں گا۔ قیصر کو چونکہ بار بار سلطان ار خان سے امداد طلب کرنے کی ضرورت پیش آتی تھی اور خانگی جھگڑے ان ایام میں اس کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کیے ہوئے تھے، لہٰذا قیصر نے گیلی پولی کے تخلیہ پر پھر اصرار نہیں کیا اور سلیمان خان نے اس کو نہیں چھوڑا۔ گیلی پولی کا قبضہ سلیمان خان کے لیے اس لیے بھی بے حد ضروری تھا کہ وینس والوں کی دستبرد سے ایشیائے کوچک کے مغربی ساحل کو محفوظ رکھنے میں وہ بہت معاون تھا۔ یہ واقعہ ۷۵۷ھ کا ہے اس کے دو سال بعد ۷۵۹ھ میں ار خان کا بیٹا سلیمان خان باز کے شکار میں گھوڑے سے گر کر فوت ہوا۔ سلیمان خان بڑا ہونہار بہادر اور عقل مند شہزادہ تھا۔ اس کے فوت ہونے کا ار خان کو سخت صدمہ ہوا، اگر وہ زندہ رہتا تو ار خان کے بعد تخت نشین سلطنت ہوتا۔ اس صدمہ جان کاہ نے ار خان کو بہت مضمحل کیا اور وہ ۷۶۱ھ میں ۳۸ سال سلطنت کرنے کے بعد ۷۵ سال کی عمر میں فوت ہوا۔