کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 762
ہوئی۔ صوبہ ایدن کے ترکی گورنر شہزادہ عمر بے سے باغیوں نے امداد طلب کی۔ اس نے ۳۸۰ جہازوں کا بیڑہ اور ۲۸ ہزار فوج لے کر سمندر کو عبور کیا اور یورپ میں داخل ہو کر شہر ڈیموٹیکا پر سے محاصرہ اٹھا دیا۔ اس کے بعد دو ہزار چیدہ سوار لے کر سرویا میں یلغار کرتا ہوا داخل ہوا۔ قیصر نے عمر بے یا عمر پاشا کو زر کثیر دے کر باغیوں کی امداد سے باز رکھا اور ترکی گورنر عمر پاشا، یورپ سے واپس ہو کر اپنے صوبہ میں چلا آیا۔ مگر اس کی اس یلغار کا نتیجہ یہ ہوا کہ قیصر اینڈ رونیکس کا پوتا اس قدر قابو پا گیا کہ اس نے قیصر کو تخت سلطنت سے اتار کر خود تخت قیصری حاصل کر لیا۔ ۷۴۲ھ میں اس کے فوت ہونے پر جان پلا لوگس قسطنطنیہ کے تخت پر متمکن ہوا۔ مگر ۷۴۸ھ میں کنٹا کوزنیس نے جان پلالوگس کو معزول کر کے تخت حکومت حاصل کر لیا اور ۷۹۴ھ تک حکومت کرتا رہا۔ اس کے بعد دو اور قیصروں نے ۸۵۷ھ تک حکومت کی جس کے بعد قسطنطنیہ ترکوں کے قبضہ میں آ گیا۔ قیصر کنٹا کوزینس (کینٹکو زینی) نے تخت قیصری پر قدم رکھتے ہی سلطان ار خان کو ایشیائے کوچک کا سلطان اعظم تسلیم کر لیا اور ترکوں کی ترک و تاز سے یورپی علاقہ کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری سمجھا کہ سلطان سے خصوصی تعلقات پیدا کیے جائیں ۔ چنانچہ قیصر نے سلطان ار خان کی خدمت میں یہ پیغام بھیجا کہ میں اپنی نہایت خوبصورت و حسین بیٹی تھیوڈوڑا کی شادی آپ کے ساتھ کرنا چاہتا ہوں ۔ قیصر کو معلوم تھا کہ سلطان کی عمر ساٹھ سال کی اور اس کی بیٹی نوجوان ہے نیز وہ مذہب کے اختلاف سے بھی بے خبر نہ تھا۔ سلطان نے قیصر کی اس درخواست کو رد نہیں کیا اور بڑی دھوم دھام کے ساتھ ملکہ تھیوڈوڑا کی شادی سلطان ار خان کے ساتھ ہوئی۔ سلطان خود قسطنطنیہ گیا اور ملکہ کو بیاہ کر لایا۔ اس شادی کے بعد قیصر کو اطمینان ہو گیا کہ اب ترک میرے ملک پر حملہ آور نہ ہو سکیں گے اور میں اپنے آپ کو طاقتور بنانے کا بخوبی موقع پا سکوں گا۔ مگر اس کے آٹھ سال بعد ایک عجیب صورت ترکوں کے یورپ میں داخل ہونے کے لیے پیدا ہوئی۔ یعنی ۷۵۶ھ میں وینس اور جنیوا کی سلطنتوں میں بحر روم کے ساحلی علاقوں اور بندر گاہوں کی نسبت جھگڑا پیدا ہوا۔ وینس اور جینوا دونوں زبردست بحری طاقتیں تھیں اور ان دونوں نے تمام بحر روم پر اپنا قبضہ و اقتدار قائم رکھا تھا۔ جنیوا والوں کا علاقہ قیصر قسطنطنیہ کے مقبوضات سے متصل تھا اس لیے قیصر قسطنطنیہ کو جنیوا والوں سے سخت نفرت و عداوت تھی اور وہ وینس والوں کی کامیابی کا خواہاں تھا۔ وینس والے بھی قیصر قسطنطنیہ کے ہوا خواہ ہمدرد تھے۔ ادھر ار خان کو وینس والوں سے اس لیے نفرت تھی کہ وہ ایشیائے کوچک کے جنوبی ساحل پر اکثر باعث تکلیف ہوتے رہتے اور سلطان ار خان کی حکومت و سلطنت کو بہ نظر حقارت دیکھتے تھے۔ اس نفرت کا لازمی نتیجہ تھا کہ سلطان ار خان جنیوا والوں کا ہمدرد ہوا۔ چنانچہ جنیوا والے بھی سلطان ار خان کے ساتھ دوستانہ مراسم