کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 761
میونسپلٹی کے محکموں کی طرف بھی اس کی خصوصی توجہ مبذول تھی ملک کے ایسے قبیلوں کو جو آوارہ گردی و قزاقی کے شوقین تھے وزیر علاؤ الدین نے ایسے کام پر لگا دیا جو ان کے لیے بہت ہی دل پسند کام تھا۔ یعنی اس نے ان میں بھی ایک نظام پیدا کر کے ان کی فوجیں اور پلٹنیں بنا دیں جن کا کام یہ تھا کہ جس ملک پر سلطنت عثمانی کی فوجیں حملہ آور ہوں یہ پلٹنیں میدان جنگ کے اطراف اور دشمن کے ملک میں پھیل کر غارت گری کا سلسلہ جاری کر کے حریف کو مرعوب و خوف زدہ بنائیں ۔
وزیراعظم علاؤ الدین نے محکمہ تعمیرات کی طرف خاص طور پر توجہ مبذول فرمائی جابجا شہروں قصبوں اور قریوں میں مسجدیں ، سرائیں ، مدرسے اور شفاخانے تیار کرائے۔ بڑے بڑے شہروں میں عالی شان شاہی محلات، دریاؤں پر پل اور سڑکوں پر حفاظتی چوکیاں بنوائیں نئی سڑکیں نکلوائیں تاکہ تجارت اور فوجوں کی نقل و حرکت میں آسانی ہو۔ غرض کہ ایشیائے کوچک کی آبادی و سر سبزی اور سلطنت عثمانیہ کے قیام و استحکام کے لیے ہر ایک ممکن تدبیر کو کام میں لایا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج تک یہ ملک ترکوں کا جائے پناہ بنا ہوا ہے اور چھ سو سال گزرنے کے بعد بھی اس ملک کی حالت یہ ہے کہ وہاں سے اسلام اور ترکوں کو نکال دینے کی جرائت کسی قوم اور کسی سلطنت میں نظر نہیں آتی۔
ارخان کی سلطنت کے تذکرہ میں اس وزیر با تدبیر کے کارناموں کا خصوصی تذکرہ نہ کرنا ایک ظلم تھا اور چونکہ وہ ار خان کا بڑا بھائی تھا اس لیے پہلے اسی کے کارناموں کی طرف اشارہ کرنا ضروری تھا۔ اب ار خان کی سلطنت کے واقعات سنو کہ اس کی تخت نشینی کے وقت اینڈر و نیکوس نامی قیصر قسطنطنیہ تھا وہ اپنے تمام ایشیائی مقبوضات چھنوا کر ایشیائے کوچک سے بالکل مایوس ہو گیا اور اس کو اس باپ کا خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں ترک سمندر کو عبور کر کے یورپی ساحل پر نہ اتر آئیں مگر ارخاں نے یورپ کی سرزمین پر قدم رکھنے سے زیادہ ضروری اس کام کو سمجھا کہ اپنے بھائی علاؤ الدین کی اصلاحوں اور ایجادوں کو ایشیائے کوچک میں اچھی طرح جاری اور رائج کر کے فائدہ اٹھائے اور اپنے مقبوضہ ملک میں خوب مضبوط ہو جائے۔ چنانچہ اس نے قریباً بیس سال تک اپنی تمام تر ہمت اصلاح ملک اور ملک داری کے کاموں میں صرف کی۔ اگر باقی ترک سلاطین بھی ار خان اور اس کے بھائی علاؤ الدین کی طرح نو مفتوحہ ملکوں کو اسی طرح درست بنانا ضروری سمجھتے تو جس طرح ایشیائے کوچک آج تک ترکوں کا مامن و امید گاہ بنا ہوا ہے۔ مصر، بلقان، حجاز، طرابلس وغیرہ بھی ان کے مامن و امید گاہ ہوتے۔
قیصر قسطنطنیہ کے پوتے اور شہزادہ کنٹا کوزینس نے قیصر کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ یہ ۷۳۹ھ کا واقعہ ہے۔ عیسائیوں کی اس خانہ جنگی میں قدرتی طور پر عثمانیوں کے لیے ایک کامیابی کی صورت پیدا