کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 758
اسی لیے انہوں نے خانہ جنگی اور اپنے مسلمان رقیبوں کے مقابلے سے اپنا پہلو ہمیشہ بچایا اور اپنے آپ کو حتی المقدور عیسائیوں کے مقابلہ کے لیے مستعد رکھا۔ چنانچہ وہ اس عظیم الشان کام کو انجام دے سکے جو ان کے مقدمین سے انجام پذیر نہ ہو سکا۔ اب ہم کو عثمان خان کے بیٹے ارخان کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔
ارخان:
عثمان خان کا بڑا بیٹا علاؤ الدین تھا اور چھوٹا ارخان تھا۔ علاؤ الدین اگرچہ علم و فضل عقل و بصیرت اور ہمت و استقلال میں بے نظیر تھا۔ مگر ارخان کے فوجی اور جنگی کارنامے اس امر کی سب سے بڑی سفارش ہوئے کہ عثمان خان نے ارخان کو اپنا جانشین تجویز کیا۔ عثمان خان کی وفات کے بعد قوی احتمال ہو سکتا تھا کہ دونوں بھائی تخت و تاج کے لیے آپس میں لڑیں گے۔ مگر بڑے بھائی علاؤ الدین نے جو ہر طرح سلطنت کی قابلیت رکھتا تھا اپنے بڑے ہونے کے حق فائق کو باپ کی وصیت کے مقابلے میں بالکل ہیچ سمجھا اور نہایت خوشی کے ساتھ بھائی کو تاج و تخت کی مبارک باد دے کر اس کے ہاتھ پر اطاعت کی بیعت کی اور اپنے لیے صرف اسی قدر کافی سمجھا کہ بروصہ کے متصل اس کو صرف ایک گاؤں گذارہ کے لیے بطور جاگیر دے دیا جائے۔ ارخان بھی اپنے بھائی کی قابلیت اور پاک باطنی سے واقف تھا۔ اس نے بہ منت عرض کیا اور اراکین سلطنت کو سفارشی بنایا کہ وزارت قبول فرما لیجئے۔ علاؤ الدین کے لیے اپنے چھوٹے بھائی کا وزیر بننا موجب عزت نہ تھا، لیکن اس نے بھائی کے اصرار پر اس عہدے کو قبول کر لیا اور اس خوبی اور نیک نیتی کے ساتھ مہمات سلطنت کو انجام دیا کہ دنیا کے پاک باطن اور عالی دماغ وزیروں کی فہرست میں اس کا نام اگر سب سے پہلے لکھا جائے تو کچھ بے جا نہیں ہے۔
سلطان ارخان نے تخت نشین ہوتے ہی ایک سال کے اندر تمام ایشیائے کوچک فتح کر کے درہ دانیال کے ساحل تک اپنی سلطنت کو وسیع کر لیا اور ایشیائے کوچک کو بہ تمامہ عیسائی حکومت سے پاک کر کے اپنے بھائی علاؤ الدین کے مشورے سے اپنی مملکت میں ایسے آئین و قوانین جاری کیے جس سے سلطنت کو استحکام حاصل ہوا۔ اس وقت تک یہ دستور تھا کہ بہادر و جنگ جو سرداروں کو ملک کے چھوٹے چھوٹے قطعات بطور جاگیر دے دیئے جاتے تھے۔ ان جاگیروں کا سرکاری محصول یا لگان یہی تھا کہ ضرورت کے وقت بادشاہ کے طلب کرنے پر مقررہ تعداد کی فوج لے کر بادشاہ کے ساتھ میدان جنگ میں داد شجاعت دیں اور جنگ کے ختم ہونے پر یہ فوج منتشر ہو کر اپنے اپنے مسکن کی طرف چلی جائے۔ جو لوگ ایک وقت میں کاشتکاریا چوپان ہوتے تھے دوسرے وقت میں مسلح سپاہی کی حیثیت سے داد شجاعت دیتے ہوئے نظر آتے اور جو سردار ایک وقت میں زمیندار یا جاگیر دار ہوتے تھے دوسرے وقت