کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 757
ذکر آتا رہا ہے۔ ایشیائے کوچک کا ایک ملک قریباً سات سو سال سے برابر مسلمانوں اور عیسائیوں کا میدان جنگ بنا ہوا تھا کسی زمانے میں مسلمانوں کو دھکیلتے ہوئے درہ دانیال اور بحیرہ مار مورا تک لے جاتے تھے اور کبھی عیسائی مسلمانوں کو ریلتے ہوئے ایران و کردستان تک چلے آتے تھے۔ عیسائیوں کی اس سلطنت کو قدرتی طور پر مسلمانوں کے مقابلہ میں دیر تک زندہ رہنے کا اس لیے موقع مل گیا کہ آپس کی نااتفاقیوں اور خانہ جنگیوں سے مسلمانوں کو ایسا موقع میسر ہی نہ آیا کہ وہ اس عیسائی رومی سلطنت کا قصہ پاک کرتے۔ اس رہے ہوئے کام کو ترکان عثمانی نے پورا کیا اور اسی لیے وہ عالم اسلام کے محبوب و مقتدا سمجھے گئے۔ ہم جس زمانے کا ذکر کر رہے ہیں یہ وہ زمانہ ہے کہ یورپ کے صلیبی سیلاب شام و فلسطین کے میدانوں میں بار بار موج زن ہو چکے ہیں ۔ عیسائیوں کے مجاہدین مسلمانوں کے مقابلے میں شکست پاپا کر اور مسلمانوں کی علمی و اخلاقی ترقیات سے متاثر ہو ہو کر یورپ میں واپس جا کر اور یورپ کے تمام ملکوں میں پھیل کر عیسائی ممالک کو بیدار اور ترقی کی طرف مائل و متوجہ کر چکے ہیں ۔ اس زمانہ کی نسبت عیسائیوں کا یہ کہنا کہ رومی سلطنت بہت ہی غافل اور کمزور تھی سراسر غلط ہے۔ عیسائیوں میں مسلمانوں کی مخالفت کے لیے اتفاق اور جوش بدرجہ اتم پیدا ہو چکا تھا۔ قسطنطنیہ کا دربار سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا۔ قسطنطنیہ کی سلطنت نسبتاً سب سے زیادہ طاقتور اور فنون جنگ سے واقف اور مقابلہ کی اہلیت رکھتی تھی۔ اس سے پہلے زمانے میں یورپ کی دوسری سلطنتیں قسطنطنیہ کی سلطنت سے رقابت بھی رکھتی تھیں ۔ لیکن لڑائیوں کے بعد تمام یورپ کی ہمدردی قسطنطنیہ کے قیصر سے متعلق تھی۔ قیصر قسطنطنیہ کے تعلقات صرف یورپ کے سلاطین تک محدود نہ تھے بلکہ وہ مسلمانوں کے ہر ایک دشمن کو اپنا دوست سمجھ کر اس سے محبت و مودت کے تعلقات رکھتا تھا۔ چنگیز خان اور اس کی اولاد کو فاتح اور غیر مسلم دیکھ کر قیصر قسطنطنیہ کے سفیر مغلوں کے دربار میں قراقورم اور چین تک پہنچے ہوئے تھے اور ابھی آگے چل کر معلوم ہو گا کہ قسطنطنیہ کے فرماں روا کو اس میں بھی تامل نہ تھا کہ وہ اپنے مد مقابل اور حریف کو اپنی بیٹی دے کر اپنا موافق بنانے کی کوشش کرے اور اس کے خطرہ سے محفوظ ہو جائے اور اپنا کام نکال لے۔ مسلمانوں کی جمعیت میں پھوٹ ڈال کر ان کو کمزور و برباد کر دینے کی حکمت عملی کچھ ہمارے موجودہ زمانے کے عیسائیوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ اس حکمت عملی پر قیصر قسطنطنیہ نے بارہا عمل کیا ہے اور وہ ہر زمانے میں نہایت چوکس اور مستعد نظر آیا ہے۔ مگر مسلمان اگر آپس کی خانہ جنگی کو چھوڑ دیں اور متفق و متحد ہو کر دشمنان اسلام کے مقابلے پر مستعد ہو جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت مسلمانوں کے مقابلے پر قائم نہیں رہ سکتی اور اس کو لازماً مغلوب و محکوم ہی ہونا پڑے گا عثمان خان اور اس کی اولاد نے اس حقیقت کو خوب اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔