کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 756
یورپی و حشیوں کے ہاتھ سے کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ ایک زمانہ ایسا بھی آیا کہ قسطنطنیہ کے بادشاہ کا شہر روما پر بھی عمل دخل ہو گیا تھا۔ عرب اور ایران والے مغربی روم سے تو ناواقف تھے جس کے نام پر سلطنت روم موسوم تھی وہ مشرقی روم کو جانتے تھے۔ مشرقی روم یعنی قسطنطنیہ کے فرماں رواؤں نے عیسائی مذہب قبول کر کے اس کی اطاعت شروع کی تو یورپ کی تمام وہ قومیں جو عیسائی مذہب قبول کرتی تھیں قسطنطنیہ کے بادشاہ کو عزت و عظمت کی نظر سے دیکھتی تھیں ۔ یہاں تک کہ قریباً تمام یورپ عیسائی مذہب میں داخل ہو گیا اور اسی لیے قیصر روم کو یورپ میں خصوصی وقار حاصل ہوا۔ جب قسطنطنیہ کا دربار عیسائی ہو گیا اور اس کے مقبوضہ ممالک میں عیسوی مذہب پھیل گیا تو عرب و ایران کے لوگ ہر ایک عیسائی کو رومی کے نام سے یاد کرنے لگے۔ قسطنطنیہ کے قیصر کی سلطنت چونکہ یونان کی شہنشاہی کے کھنڈروں پر تعمیر ہوئی تھی اور قیصر روم سکندر یونانی کے مقبوضہ ممالک کا مالک تھا، لہٰذا قسطنطنیہ کی سلطنت کو یونانی سلطنت بھی کہا جاتا تھا، اسی لیے مورخین نے رومی اور یونانی دونوں الفاظ مترادف اور ہم معنی سمجھ کر استعمال کیے ہیں ۔ قیصر قسطنطنیہ کی سلطنت میں چونکہ ایشیائے کوچک اور شام کا ملک بھی شامل تھا۔ اس لیے اسلام کے ابتدائی زمانے میں ایشیائے کوچک کو روم کا ملک کہا جاتا تھا۔ ملک شام سے تو عیسائی حکومت بہت جلد اٹھا دی گئی تھی، مگر ایشیائے کوچک میں قیصر روم کی حکومت عہد اسلامیہ میں بھی عرصہ دراز تک قائم رہی، اس لیے ایشیائے کوچک کو عام طور پر ملک روم کہا جانے لگا۔ جب سلجوقیوں کی ایک سلطنت ایشیائے کوچک کے ایک حصہ میں قائم ہوئی تو اس کو ملک روم کی سلجوقی سلطنت کہا گیا اور اس سلطنت کے سلاطین سلاجقہ روم کے نام سے پکارے گئے ان سلاجقہ روم کے بعد عثمان خان اول نے اپنی سلطنت سلطنت ایشیائے کوچک میں قائم کی اور قریباً تمام ایشیائے کوچک پر قابض ہو گیا تو وہ بھی سلطان روم کہلایا پھر اس کے بعد سے آج تک عثمانی سلاطین سلطان روم ہی کہلائے جاتے ہیں ۔ قسطنطنیہ کے قیصر نے جب عیسوی مذہب قبول کیا تو اس عیسوی سلطنت اور ایران کی مجوسی سلطنت میں بار بار لڑائیاں ہوئیں ۔ ان لڑائیوں کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ ملک عرب میں اسلامی سلطنت نے قائم ہو کر مجوسیوں اور عیسائیوں کو مبہوت کر دیا۔ مجوسی سلطنت تو پاش پاش ہو کر معدوم ہو گئی لیکن قسطنطنیہ کی عیسائی سلطنت عرصہ دارز تک قائم رہی۔ ہم جس زمانے کی تاریخ بیان کر رہے ہیں اس زمانے میں بھی یہ عیسائی سلطنت موجود ہے۔ خلفائے راشدین کے عہد سعادت میں شام و فلسطین و مصر سے قیصر روم کی عیسائی حکومت بالکل مٹا دی گئی تھی۔ اس کے بعد خلفائے بنو امیہ اور خلفائے بنو عباس کے زمانے میں قیصر روم کے ساتھ برابر لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ جس کا مختصر طور پر خلفاء کے حالات میں کہیں کہیں