کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 754
نہ کسی وقت میرے خاندان کی بیخ کنی پر آمادہ ہو سکتے ہیں ۔ ادھر اس کو معلوم تھا کہ مغلوں کو مسلمانوں سے محض اسلام کی وجہ سے کوئی دشمنی نہیں ہے اور وہ خود اسلام قبول کرتے جاتے ہیں ۔ اگر دارالسطنت قونیہ رہا تو خواہ مخواہ مغلوں اور دوسرے سرداروں کے ساتھ جھگڑے برپا رہیں گے حالانکہ مسلمانوں کے لیے سب سے بہتر میدان عیسائی ممالک ہیں ۔ لہٰذا بروصہ کے دارالسلطنت ہونے سے عیسائیوں کو لازماً ایشیائے کوچک کے خیال سے دست بردار ہونا پڑے گا اور وہ درہ دانیال سے اس طرف آنے کی کبھی جرائت نہ کر سکیں گے نیز بروصہ کے بادشاہوں کو بآسانی یورپ پر حملہ آور ہونے اور بلقان کے فتح کرنے موقع ملے گا۔ عثمان کا یہ خیال بہت صحیح تھا۔ اس کے جانشینوں نے اس عثمانی اصول کو مد نظر رکھا اور اسی اصول پر کار بند رہنے کا نتیجہ تھا کہ چند روز کے بعد عثمانیوں کا دارالسلطنت اور نہ یعنی ایڈریا نوپل ہوا۔ جس کے بعد وہ قسطنطنیہ پر قابض ہو سکے۔ عثمان خان کی نسبت مشہور ہے کہ وہ غیر معمولی بہادری رکھتا تھا۔ جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اس کے ہاتھ جب کہ وہ سیدھا کھڑا ہوتا تھا تو گھٹنوں تک پہنچ جاتے تھے۔ وہ اعلیٰ درجہ کا شہسوار اور خوبصورت شخص تھا۔ اس کی قوت فیصلہ بہت زبردست تھی وہ پیچیدہ اور اہم امور کے متعلق فوراً ایک رائے قائم کر لیتا تھا اور وہی رائے درست اور صائب ہوتی تھی۔ وہ بلا کا ذہین اور ذکی تھا۔ رحم دلی اور فیاضی کی صفات میں بھی وہ خاص طور پر بلند مرتبہ رکھتا تھا۔
قونیہ کے سلجوقی بادشاہوں کے جھنڈوں پر ہلال کی شکل بنی ہوئی ہوتی تھی۔ اس ہلال کے نشان کو عثمان خان نے بھی بدستور اپنے فوجی جھنڈوں میں قائم رکھا اور یہی ہلال کا نشان عثمانی سلاطین کا قومی نشان سمجھا گیا اور آج تک وہ مسلمانوں کے لیے سب سے زیادہ محبوب نشان ہے۔ عثمان خان ۶۹ سال اور چند مہینے کی عمر میں ۲۷ سال کی حکومت کے بعد فوت ہوا اس کے زہد و اتقا کا اندازہ شاید اس طرح ہو سکے کہ مرتے وقت عثمان کی ذاتی ملکیت میں زرہ، شلوار اور پٹکے کے سوا اور کوئی چیز نہ تھی۔ یہی وہ تلوار ہے جو ہر عثمانی سلطان کی تخت نشینی کے وقت اس کی کمر سے باندھی جاتی رہی ہے۔ اس جگہ یہ بتا دینا ضروری ہے کہ عثمان خان نے جب قونیہ کو ترک کیا تو پرانے سلجوقی خاندان کے افراد کو قونیہ کا عامل اور حکمران مقرر کر کے ان مراسم و اعزازات کو ان کے لیے جائز قرار دے دیا تھا جو سلجوقی سلاطین کے لیے مختص تھے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ قونیہ میں عثمان خان نے ایک ماتحت ریاست قائم کر دی تھی جو پرانے سلاجقہ روم کے خاندان میں سلطنت عثمانیہ کی ماتحت عرصہ تک قائم رہی۔ اس طرز عمل سے بھی عثمان خان کی شرافت اور پاک باطنی و مآل اندیشی کا ایک ثبوت بہم پہنچتا ہے۔