کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 748
تیئسواں باب: سلطنت عثمانیہ اوپر کے باب میں ہم پھر دسویں صدی ہجری کے شروع تک پہنچ گئے تھے۔ سلسلۂ مضامین کو مکمل رکھنے کی غرض سے ہم کو لوٹ کر پھر ساتویں صدی ہجری کے ابتدائی زمانے اور ایشیائے کوچک کے میدانوں میں واپس آنا چاہیے جب کہ سلطنت عثمانیہ کا سنگ بنیاد رکھا جا رہا تھا۔ سلطنت عثمانیہ کے ابتدائی تین سو سال کی تاریخ بیان کرنے کے بعد یعنی دسویں صدی ہجری کے شروع تک پہنچ کر ہم کو غالباً پھر پیچھے واپس ہونا پڑے گا۔ تاکہ تیمور اور ایران کے صفوی خاندان کی تاریخ سے بھی فارغ ہو کر پھر دسویں صدی ہجری میں داخل ہوں اور سلطنت عثمانیہ کے بقیہ تین سو سال کی تاریخ کسی آئندہ باب میں ختم کریں ۔ باللہ التوفیق۔ ترکوں کے ان غارت گر قبائل نے جو ترکان غز اور غزان کے نام سے مشہور ہیں خراسان و ایران میں داخل ہو کر سلطنت سلجوقیہ کے اعتبار وقار کو صدمہ پہنچایا تھا۔ ان ترکان غز کی ترک و تاز کا پتہ ملک چین کے صوبہ منچوریا سے لے کر مراکش تک تاریخوں میں ملتا ہے، انہوں نے سلطان سنجر سلجوقی کو گرفتار کر کے بہت کچھ اپنی دہشت لوگوں کے دلوں میں بٹھا دی تھی۔ مگر جب چنگیز خان نے خروج کیا تو ان کا زور بہت کچھ گھٹ چکا تھا۔ رہا سہا رعب چنگیزی کشت و خون کے آگے مٹ گیا پہلے بھی یہ لوگ مختلف قبائل پر منقسم تھے۔ جب گرم بازاری جاتی رہی تھی اور بھی زیادہ تشتت اور پراگندگی نے ان میں راہ پائی، کوئی قبیلہ مصر کی طرف جا کر وہاں کی فوج میں بھرتی ہو گیا۔ کوئی شام میں اور کوئی آرمینیا و آذر بائیجان میں رہنے لگا۔ چونکہ ان کے اندر کوئی ایک زبردست شہنشاہ پیدا نہیں ہوا تھا۔ اس لیے ان لوگوں کے حالات تاریخوں میں بھی بالتفصیل نہیں لکھے گئے، مگر ان کے اندر عرصہ دراز تک خراسان و ایران میں فاتحانہ حیثیت سے رہنے کے سبب تہذیب و شائستگی نے ضرور ترقی کی تھی اور اولوالعزمی و بلند ہمتی کی شان ان کے ہر قبیلہ اور ہر خاندان میں موجود تھی۔ حکومت و فتح مندی کے عالم میں بھی انہوں نے اپنے ریوڑوں کی محبت نہیں چھوڑی تھی۔ اس لیے اب خروج چنگیزی کے وقت کچھ تو چنگیز خان کی فوج میں داخل ہو گئے اور اکثر خراسان و ایران اور دوسرے ملکوں کی سر سبز و شاداب چراگاہوں اور جنگلوں میں رہنے لگے انہی ترکان غز کا ایک قبیلہ جو خراسان میں اقامت گزیں تھا۔ ساتویں صدی ہجری کے شروع ہوتے ہی جب کہ چنگیزی مغلوں کی حملہ آوری خراسان پر شروع