کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 747
شاہان مصر میں کبھی کبھی ناچاقی و ناراضی بھی پیدا ہو جاتی تھی۔ خلیفہ کو عام مسلمانوں کی ہمدردی پر اعتماد ہوتا تھا۔ تو شاہ مصر کو اپنی شاہی طاقت و سطوت پر گھمنڈ تھا۔ بہر حال سلطان سلیم عثمانی نے اس کشمکش کو مٹا کر سلطنت و خلافت دونوں چیزوں کو اپنے وجود میں مجتمع کر لیا اور پونے تین سو سال کے بعد خلیفہ اسلام کی حیثیت ایک پیر یا سجادہ نشین سے تبدیل ہو کر اپنی اصلی حالت یعنی جامہ شہنشاہی میں نمودار ہوئی۔ خلفائے عباسیۂ مصر: نمبر شمار خلیفہ کا نام سنہ جلوس ۱۔ مستنصر باللہ بن ظاہر بامر اللہ بن ناصر لدین اللہ ۶۵۹ھ ۲۔ حاکم بامراللہ بن مستر شد باللہ ۶۶۰ھ ۳۔ مستکفی باللہ بن حاکم بامراللہ ۷۰۱ھ ۴۔ واثق باللہ ۷۰۴ھ ۵۔ حاکم بامراللہ بن مستکفی باللہ ۷۴۲ھ ۶۔ معتضد باللہ ۷۵۳ھ ۷۔ متوکل علی اللہ ۷۶۲ھ ۸۔ مستعصم باللہ بن محمد ابراہیم ۷۷۸ھ ۹۔ مستعین باللہ ۸۰۸ھ ۱۰۔ معتضد باللہ ۸۱۵ھ ۱۱۔ مستکفی باللہ ۸۴۵ھ ۱۲۔ قاسم بامر اللہ بن متوکل ۸۵۸ھ ۱۳۔ مستعد باللہ بن متوکل ۸۵۸ھ ۱۴۔ متوکل علی بن یعقوب بن متوکل ۸۷۲ھ ۱۵۔ مستمسک باللہ ۹۰۳ھ سلطان سلیم عثمانی نے مصر کو فتح کیا تو مستمسک نے عصاء، چادر اور دوسرے تمام تبرکات جو اس کے پاس بطور نشان خلافت موجود تھے سلطان سلیم کو دے دیئے اور خود بھی سلطان سلیم کے ہاتھ پر بیعت خلافت کر لی۔ سلطان سلیم عثمانی مصر سے مستمسک کو اپنے ہمراہ قسطنطنیہ لے گیا اور وہیں اس کا انتقال ہوا۔