کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 742
پر حملہ آوری کی، اس حملہ آوری کی زد پر صلاح الدین ہی پہاڑ بن کر ڈٹ گیا تھا۔ دوسری طرف ملاحدہ الموت یعنی فدائیوں نے جو چھپ کر حملہ کرتے اور مسلمان امراء کو قتل کرنا ثواب جانتے تھے ایک تہلکہ عظیم برپا کر رکھا تھا۔ ان فدائیوں سے لوگ بہت خائف و ترساں تھے۔ ان ظالموں نے سلطان صلاح الدین کو بھی قتل کرنے کی کوشش کی، مگر وہ اللہ کے فضل و کرم سے بچ گئے۔ آخر شام کے تمام سرداروں نے مل کر صلاح الدین کو ملک شام کا باقاعدہ بادشاہ تسلیم کیا اور سلطان صلاح الدین نے بیت المقدس کو عیسائیوں کے قبضے سے نکالنے کی کوشش شروع کی ۵۸۳ھ میں سلطان صلاح الدین نے ایک جنگ عظیم کے بعد بیت المقدس کے عیسائی بادشاہ کو میدان جنگ میں گرفتار کر لیا اور پھر اس سے یہ اقرار لے کر کہ وہ سلطان کے مقابلے میں نہ آئے گا چھوڑ دیا۔ اس کے بعد عکہ پر قبضہ کیا اور ۵۸۸ھ میں بیت المقدس کو فتح کر لیا۔ ۴۹۰ھ سے ۵۸۸ھ تک یعنی ۹۸ سال کے قریب بیت المقدس عیسائیوں کے قبضے میں رہا۔ عیسائیوں نے جب بیت المقدس کو مسلمانوں سے فتح کیا تھا تو مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہا دی تھیں لیکن سلطان صلاح الدین ایوبی نے جب اس مقدس شہر کو عیسائیوں سے فتح کیا تو کسی عیسائی باشندے کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ بیت المقدس کی فتح کا حال سن کر تمام براعظم یورپ میں ایک حشر برپا ہو گیا اور گھر گھر کہرام مچ گیا۔ چنانچہ فلپ شہنشاہ فرانس، رچرڈ شیر دل بادشاہ انگلستان، فریڈرک شہنشاہ جرمنی اور بہت سے چھوٹے چھوٹے بادشاہ نواب اور امراء لشکر عظیم لے کر متفقہ طور پر تمام براعظم ایشیاء کو فتح کر کے اسلام کا نام و نشان مٹانے کے ارادے سے حملہ آور ہوئے۔ عیسائی افواج جرار کا یہ سمندر اس طرح متلاطم ہوا اور اس شان و شوکت کے ساتھ ملک شام کی طرف بڑھا کہ بظاہر براعظم ایشیاء کی خیر نظر نہیں آتی تھی، مگر حیرت ہوتی ہے کہ سلطان صلاح الدین نے چار سال تک کئی سو لڑائیاں لڑ کر عیسائیوں کے اس بے پایاں لشکر کو خاک و خون میں ملایا اور اپنے سامنے سے بھگایا مگر بیت المقدس کی دیواروں تک نہیں پہنچنے دیا۔ آخر ناکام و نامراد یہ عیسائی سلاطین نہایت ذلت کے ساتھ واپس ہوئے اور سلطان صلاح الدین نے عیسائیوں کو یہ رعایت عطا کی کہ وہ اگر بیت المقدس میں محض زیارت کے لیے آئیں تو عیسائیوں کو کسی قسم کی روک ٹوک نہ کی جائے گی۔ ان مذکورہ لڑائیوں میں صلاح الدین نے جس شرافت و انسانیت کا برتاؤ کیا اور جس شجاعت و جفاکشی کا اظہار اس سے ہوا اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج تک بھی تمام یورپ سلطان صلاح الدین کو عزت و عظمت کے ساتھ یاد کرتا اور اس کے نام کو شجاعت و شرافت کا مترادف سمجھتا ہے۔ حالانکہ سلطان صلاح الدین ہی نے تمام براعظم یورپ کو اس کے مقصد وحید میں ناکام و نامراد رکھ کر واپس بھگایا تھا۔ ۵۸۹ھ میں سلطان صلاح