کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 740
بائیسواں باب :
مصر و شام کی اسلامی تاریخ کا اجمالی تتمہ
سلجوقیوں کی سلطنت کے ضعیف ہونے پر خود خاندان سلجوقیہ کے بہت سے ٹکڑے ہو گئے اور انہوں نے الگ الگ حکومتیں قائم کیں ۔ اسی طرح اتابکوں کی بہت سی حکومتیں الگ الگ قائم ہوئیں اور اس طرح ایران و خراسان و عراق و فارس و شام و ایشیائے کوچک میں مسلمانوں کی چھوٹی چھوٹی بہت سی سلطنتیں پیدا ہو گئیں ۔ جن کا حال اوپر مذکور ہو چکا ہے انہی میں سے خاندان سلجوقیہ کی ایک سلطنت ایشیائے کو چک میں قائم ہوئی جس کا دارالسلطنت شہر قونیہ تھا اور جو سلاجقۂ روم کے نام سے موسوم ہے۔ یہ سلطنت ترکوں کی عثمانیہ سلطنت کے قائم ہونے تک باقی رہی۔ اسی طرح ملک شام میں اتابکوں کی ایک خود مختار سلطنت قائم ہوئی۔ جن کو اتابکان شام کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔
اتابکان شام :
۵۲۱ھ میں اتابک عماد الدین زنگی نے ملک شام میں اپنی خود مختار حکومت کی بنیاد رکھی۔ اس عماد الدین زنگی کا حال اوپر خلفاء کے سلسلہ میں آ چکا ہے۔ ۵۴۴ھ میں جب عماد الدین زنگی نے وفات پائی تو اس کے تین بیٹے نور الدین زنگی، سیف الدین زنگی اور قطب الدین زنگی موجود تھے۔ ان تینوں نے ملک شام میں الگ الگ شہروں میں حکومتیں قائم کر کے نور الدین زنگی کو اپنا سردار اور سلطان تسلیم کیا۔ جس طرح ایشیائے کو چک کے سلاجقۂ روم عیسائیوں سے ہمیشہ برسر پیکار رہے اسی طرح اتابکان شام بھی عیسائیوں ہی کے حملوں کی روک تھام میں مصروف تھے۔ خاص کر سلطان نور الدین نے عیسائیوں کے خلاف بڑے بڑے کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ حلب، موصل اور دمشق اس خاندان کے حاکم نشین شہر تھے۔ سلطان نور الدین زنگی بڑا بہادر با خدا اور نیک طینت شخص تھا۔ ۴۹۰ھ سے بیت المقدس عیسائیوں کے قبضے میں تھا اور انہوں نے وہاں اپنی ایک سلطنت قائم کر لی تھی۔ تمام براعظم یورپ بیت المقدس کی اس عیسائی سلطنت کا ممدو معاون تھا۔ سلطان نور الدین کی تمام تر ہمت و توجہ اس کوشش میں صرف ہوئی کہ بیت المقدس کو عیسائیوں کے قبضے سے نکالا جائے، مگر سلطان نور الدین زنگی اپنی زندگی میں بیت المقدس کو آزاد نہ کرا سکا۔
اس کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس کام کو بحسن و خوبی انجام دیا۔ نور الدین کو بغداد