کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 74
قتیبہ، مکہ و طائف میں عبداللہ بن قثم۔ یمامہ و بحرین میں سوید قائد خراسانی۔ عمان میں حسن بن سلیم حواری، کوفہ میں موسیٰ بن عیسیٰ، بصرہ میں ابن سلیمان، جرجان میں خلیفہ ہادی کا آزاد کردہ غلام حجاج۔ قومس میں زیاد بن حسان، طبرستان میں صالح بن شیخ بن عمیرہ اسدی۔ موصل بن ہاشم بن سعید بن خالد۔ ہاشم کو ہادی نے اس کی کج خلقی کے سبب معزول کر کے عبدالملک بن صالح بن علی ہاشمی کو موصل کی حکومت پر مامور کیا تھا۔
حسین بن علی کا خروج:
حسین بن علی بن حسن مثلث بن حسن مثنیٰ بن حسن بن علی بن ابی طالب اور حسن بن محمد بن عبداللہ بن حسن، ان کے چچا یحییٰ بن عبداللہ بن حسن اور دوسرے آل ابی طالب نے مل کر حکومت عباسیہ کے خلاف خروج کی سازش کی تھی اور یہ بات قرار پائی تھی کہ ۱۵۹ھ کے موسم حج میں خروج کرنا چاہیے۔ مگر ایام حج سے پہلے ہی مدینہ کے عامل عمر بن عبدالعزیز بن عبیداللہ سے ان لوگوں کی کچھ ان بن ہو گئی اور انہوں نے خروج کر کے عامل مدینہ کے مکان کا محاصرہ کر کے حسین بن علی بن حسن مثلث کے ہاتھ پر بیعت کرنی شروع کی اور اہل مدینہ اس بیعت میں شامل ہونے لگے۔
اس اثناء میں خالد یزیدی دو سو آدمیوں کی جمعیت سے آ پہنچا۔ دوسری جانب سے عمر بن عبدالعزیز بھی محاصرہ سے نکل کر اور ایک جماعت کو ہمراہ لے کر مسجد کی طرف جہاں حسین بن علی کے ہاتھ پر بیعت ہو رہی تھی آ پہنچا۔ جو لوگ مسجد میں موجود تھے انہوں نے مقابلہ کیا، اس لڑائی میں خالد یزیدی یحییٰ و ادریس پسران عبداللہ بن حسن کے ہاتھ مارا گیا۔ اس کے مارے جاتے ہی سب کو شکست ہوئی اور حسین بن علی کی جماعت نے بیت المال کا دروازہ توڑ کر سرکاری خزانہ لوٹ لیا۔ اگلے دن بنو عباس کے حامیوں نے جمع ہو کر پھر مقابلہ کیا۔ کئی روز تک مدینہ میں لڑائی کا یہ سلسلہ جاری رہا، آخر حسین بن علی نے سب کو خارج کر کے مدینہ پر مکمل قبضہ حاصل کیا۔ اکیس روز تک مدینہ میں قیام کر کے مکہ کی جانب کو کوچ کیا۔ مکہ معظمہ میں پہنچ کر منادی کرا دی کہ جو غلام ہمارے پاس آئے گا ہم اس کو آزاد کر دیں گے۔ یہ سن کر غلاموں کا ایک گروہ حسین بن علی کے گرد فراہم ہو گیا۔
اس سال سلیمان بن منصور، محمد بن سلیمان بن علی، عباس بن محمد بن علی، موسیٰ و اسمعیٰل پسران عیسیٰ بن موسیٰ وغیرہ عباسیہ خاندان کے چند آدمی حج کے لیے آئے تھے۔ ان لوگوں کے روانہ ہونے کے بعد ہادی کے پاس حسین بن علی کے خروج کی خبر پہنچی۔ ہادی نے فوراً محمد بن سلیمان کو ایک خط لکھا کہ تم اپنے تمام ہمراہیوں کو لے کر حسین بن علی کا مقابلہ کرو۔ محمد بن سلیمان اپنے ساتھ کچھ فوج بھی لایا تھا۔ محمد بن