کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 739
سفروں میں بھی شامل رہے۔ چنانچہ سلطان شہاب الدین غوری کی فوج میں آپ بطور امام مامور تھے یعنی نمازوں کی امامت آپ ہی فرماتے تھے۔ اسی سلسلہ میں سلطان شہاب الدین کی شہادت فدائیوں کے ہاتھ سے ۶۰۲ھ میں ہوئی جس کے بعد امام فخرالدین رازی خوارزم شاہ کے پاس چلے گئے۔
علاؤالدین محمد کے بعد اس کا بیٹا جلال الدین حسن الموت میں تخت نشین ہوا۔ اس نے باپ اور دادا کے عقائد سے توبہ کی اور اپنی اس توبہ کا حال تمام سلاطین اسلام کے پاس لکھ کر بھیجا چنانچہ یہ عالم اسلام میں جلال الدین حسن نو مسلم کے نام سے مشہور ہوا۔ خلیفہ ناصر عباسی بھی جلال الدین سے بہت خوش ہوا۔ چنانچہ جب جلال الدین حسن کی ماں حج کرنے کے لیے خانہ کعبہ میں گئی تو خلیفہ کے حکم سے سلطان محمد خوارزم شاہ کا رایت جلال الدین حسن کی ماں کے رایت سے پیچھے رکھا گیا اس طرح خلیفہ نے جلال الدین حسن کی ہمت افزائی کی مگر سلطان محمد خوارزم شاہ اس بات سے بے حد ناخوش ہوا اور اسی کا نتیجہ تھا کہ خوارزم شاہ نے خلیفۂ بغداد کے خلاف مہم تیار کی۔
جلال الدین حسن کی وفات کے بعد اس کا نو سالہ بیٹا علاؤالدین محمد تخت نشین ہوا چونکہ یہ لڑکا تھا۔ اس کے وقت میں سلطنت کے اندر بہت سے فتنے پیدا ہوئے اور مذہبی معاملات میں بھی تمسخرانگیز باتوں کا اظہار ہونے لگا۔ نصیرالدین طوسی بھی اسی کے عہد میں تھا۔ ۶۵۳ھ میں اس کا انتقال ہوا اور اس کا بیٹا رکن الدین خور شاہ تخت نشین ہوا۔ ہلاکو خان نے حملہ کر کے رکن الدین خورشاہ کو گرفتار اور اس کے قلعوں کو مسمار کر دیا۔ اس طرح اس خاندان کا خاتمہ ہو گیا۔ کہا جاتا ہے کہ ہمارے زمانہ میں سر آغا خان جو بمبئی وغیرہ کی طرف بوہروں کی قوم کے پیر سمجھے جاتے ہیں اسی خاندان کی یادگار ہیں ۔