کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 738
معلوم ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ اس کے دو بیٹوں نے کسی کام میں اس کی نافرمانی کی تو حسن بن صباح نے ناراض ہو کر دونوں کے صرف ایک ایک طمانچہ مارا تو طمانچہ کی اس ضرب سے دونوں مر گئے۔
ایک مرتبہ حسن بن صباح کو سلجوقیوں کی حملہ آوری اور محاصرہ کے وقت اپنے بیوی بچوں کو ایک دوسرے قلعے میں احتیاطاً بھیجنے کی ضرورت پیش آئی تو اس نے اس قلعہ کے حاکم کو تاکید کر دی کہ میری بیوی خود ہی سوت کات کر اپنے خورد و نوش کے لیے سامان فراہم کرے گی تم کو اس کی کوئی مہمان نوازی نہیں کرنی چاہیے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حسن بن صباح نہ صرف خود ہی سادہ زندگی بسر کرتا تھا بلکہ وہ اپنے اہل و عیال کو بھی راحت طلبی سے دور و مہجور رکھنا چاہتا تھا۔
حسن بن صباح کی وفات کے بعد کیا بزرگ امید الموت میں تخت نشین ہوا سلطان محمد سلجوقی اور کیا بزرگ امید کے درمیان محمد سلجوقی کی وفات تک لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ محمد سلجوقی کی وفات کے بعد کیا بزرگ امید نے سلجوقیوں کے کئی قلعوں کو اپنی حکومت میں شامل کیا اور گیلان کو خوب لوٹا۔
کیا بزرگ امید کے بعد اس کا بیٹا محمد نامی تخت نشین ہوا۔ اس کے عہد حکومت میں فدائیوں نے جابجا بادشاہوں اور بڑے آدمیوں کو قتل کرنا شروع کیا۔ جب قتل کی وارداتیں کثرت سے وقوع پذیر ہوئیں تو ایران کے لوگوں نے سلطان سنجر سلجوقی کی خدمت میں فریاد کی اور علماء نے ان فدائیوں کے خلاف قتل کے فتوے دیئے، مگر سلطان سنجر نے ایلچی الموت میں بھیجے کہ وہ ان لوگوں کے اعمال و عقائد کی نسبت صحیح حالات معلوم کر کے آئیں ۔ چنانچہ مجلس مناظرہ منعقد ہوئی اور ان ملاحدہ نے اپنی بے گناہی کے ثبوت پیش کرنے کی خوب کوششیں کیں ۔ آخر یہ افہام و تفہیم بلا نتیجہ رہی اور سلطان سنجر نے ان ملاحدہ کے قتل عام کی نسبت حکم دینے میں تامل اور احتیاط ہی کو ضروری خیال کیا۔
تین سال کے بعد محمد بن کیا بزرگ امید فوت ہوا۔ اس کی جگہ حسن بن محمد تخت نشین ہوا، اس نے اپنے فرقہ میں دہریت اور بے دینی کو بہت ترقی دی۔ ۵۶۱ھ میں جب یہ فوت ہوا تو اس کی جگہ اس کا بیٹا علاؤالدین محمد تخت نشین ہوا۔ اس کے زمانے میں امام فخرالدین رازی نے آذر بائیجان سے رے میں آکر سلسلۂ درس جاری کیا وہ اپنے وعظ و درس میں فرقۂ ملاحدہ کے خلاف اکثر فرمایا کرتے تھے۔ تاکہ لوگ ان کی طرف یعنی فدائیوں کی جانب مائل نہ ہوں ۔ فدائیوں نے رے میں پہنچ کر امام فخرالدین رازی کو قتل کی دھمکیاں دیں اور ان کو متنبہ کیا کہ اگر تم ہمارے خلاف باتیں بیان کرنے سے باز نہ آؤ گے تو قتل کر دیئے جاؤ گے۔ اس کے بعد امام موصوف رے سے روانہ ہو کر غور میں غیاث الدین غوری اور اس کے بھائی شہاب الدین غوری کے پاس چلے آئے اور سلطان شہاب الدین کے ساتھ ہندوستان کے