کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 733
کارگرنہ ہوئی۔ علاؤ الدین نے غزنی کو فتح کر لیا اور بہرام غزنوی ہندوستان کی طرف بھاگ آیا۔ علاؤ الدین غوری نے اپنے بھائی کے انتقام میں باشندگان غزنی کا قتل عام کیا۔ سلاطین غزنی کے بعض مقبروں کو مسمار کیا۔ مکانوں کو آگ لگا دی اور ایک ہفتہ تک اس قتل و خون ریزی کے سلسلے کو جاری رکھا جس کی وجہ سے وہ علاؤ الدین جہان سوز کے نام سے مشہور ہوا۔ غزنی کے بہت سے لوگوں کو گرفتار کر کے لے گیا اور وہاں ان کو قتل کر کے ان کے خون سے گارا بنوا کر شہر پناہ کی تعمیر میں استعمال کیا۔ یہ واقعہ ۵۴۷ھ کا ہے۔ علاؤ الدین جہاں سوز غوری نے غزنی کی فتح کے بعد غزنی میں اپنا ایک نائب السلطنت مقرر کیا اور خود غور کی جانب اپنے دارالحکومت فیروز کوہ کی جانب چلا گیا۔ اس طرح غزنی غور کی سلطنت کا ایک صوبہ بن گیا۔ بہرام غزنوی چونکہ سلطان سنجر سلجوقی کی سیادت کو تسلیم کر چکا تھا، لہٰذا اس نے ہندوستان سے سلطان سنجر سلجوقی کے پاس فریاد نامے بھیجے سلطان سنجر سلجوقی نے دوسرے سال حملہ کر کے غور و غزنی کو فتح کر کے بہرام غزنوی کو پھر اپنی طرف سے غزنی پر قابض کر دیا اور علاؤ الدین جہاں سوز غوری کو گرفتار کر کے اپنے ہمراہ لے گیا علاؤ الدین غوری نے غزنی کی تباہی میں جو کچھ کیا جوش انتقام سے کیا۔ ورنہ وہ بہت سمجھ دار، دور اندیش اور قابل شخص تھا۔ چنانچہ چند ہی روز کے بعد سلطان سنجر نے علاؤ الدین کی قابلتیوں سے واقف اور خوش ہو کر اس کو رہا کر دیا اور وہ اپنے وطن غور میں آکر پھر حکومت کرنے لگا۔ اس کے بعد ہی ترکان غز نے سلطان سنجر کو گرفتار کر لیا اور سلجوقیوں کا رعب و اقتدار کم ہوا۔ سلطان سنجر سلجوقی چار سال تک ترکان غز کی قید میں رہا۔ یہ قید اسی قسم کی تھی جیسے کہ ہندوستان کا بادشاہ جہانگیر مہابت خان کی قید میں تھا، یعنی ترکان غزون کے وقت سلطان سنجر کو تخت پر بٹھاتے اور اس کے سامنے مودبانہ ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے اور رات کے وقت اس کو ایک آہنی قفس میں بند کر دیتے۔ سلطان سنجر ہی کو اپنا بادشاہ اور سلطان مانتے اور جہاں چاہتے اپنے ساتھ اس کو لیے پھرتے تھے۔ سلطان سنجر کے قید ہونے کے بعد علاؤ الدین غوری نے بہرام غزنوی کو بے دخل کر کے غزنی پر بھی قبضہ کر لیا اور چند روز کے بعد اپنی موت سے مر گیا۔ علاؤ الدین غوری کو دولت غوریہ کا پہلا خود مختار سمجھنا چاہیے اس کی وفات کے بعد اس کا بیٹا سیف الدین ثانی غور کے تخت پر بیٹھا اور ڈیڑھ سال کے قریب حکومت کر کے ترکان غز کی ایک لڑائی میں اپنے ہی ایک سردار کے ہاتھ سے مارا گیا۔ اس کے بعد علاؤ الدین غوری کا بھتیجا غیاث الدین غوری تخت نشین ہوا۔ اس کا ایک بھائی شہاب الدین غوری تھا، وہ بھی اپنے بھائی کے ساتھ اسی طرح حکومت و سلطنت میں شریک تھا۔ جس