کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 732
کے مقابلے میں ناکامی کا منہ دیکھا۔
ان میں جلال الدین خوارزم شاہ سب سے زیادہ مشہور ہے۔ اس نے سندھ کے کنارے چنگیزخان کا بڑی بہادری سے مقابلہ کیا مگر مفید نتیجہ نہ نکلا۔ ہندوستان کی حدود میں داخل ہو کر اور چند روز سندھ میں رہ کر پھر واپس چلا گیا اور واپسی میں الموت کے ملا حدہ یعنی فدائیوں کا بہت کچھ زور توڑتا گیا۔ ایک طرف مغلوں سے لڑا دوسری طرف فرنگیوں یعنی رومیوں سے بھی خوب لڑا۔ عراق میں اس نے فتوحات حاصل کیں ، مگر حالات کچھ ایسے ناموافق تھے کہ اپنی کھوئی ہوئی سلطنت کو دوبارہ قائم نہ کر سکا اور گمنامی کے عالم میں مارا گیا یا فقیری لباس میں روپوش ہو گیا۔ مورخین نے جلال الدین خوارزم شاہ کا ذکر اس لیے محبت و عزت کے ساتھ کیا ہے کہ وہ ایک بہادر شخص تھا اور متعدد مقامات پر اس نے اپنی بہادری کا ثبوت پیش کر کے اپنے آپ کو مستحق ستائش بنا لیا تھا۔ اسی پر خاندان خوارزم شاہیہ کا خاتمہ ہو گیا۔
دولت غوریہ:
ہرات کے مشرقی کوہستان میں غور ایک وسیع خطہ کا نام ہے۔ محمود غزنوی نے اس علاقے کو فتح کر کے اپنی سلطنت کا ایک صوبہ بنا لیا تھا۔ غور کے باشندوں نے دوسری صدی ہجری کے شروع میں اسلام قبول کر لیا تھا اور یہاں سب افغانی قومیں آباد تھیں ۔ محمود غزنوی نے غور کی صوبہ داری پر انہی افغانوں کے ایک شریف شخص کو مامور فرما دیا تھا۔ جس کے خاندان میں غور کی حکومت بطور صوبہ داری چلی آتی تھی۔ اتفاقاً سلطان بہرام غزنوی اور غور کے حاکم قطب الدین میں کسی بات پر ناچاقی پیدا ہوئی اور نوبت جنگ و پیکار تک پہنچی۔ اس لڑائی میں قطب الدین غوری مارا گیا۔ قطب الدین غوری کے بھائی سیف الدین نے اپنے بھائی کے انتقام میں غزنوی پر فوج کشی کر کے بہرام غزنوی کو غزنی سے نکال دیا اور خود تخت غزنی پر متصرف ہوا۔ بہرام غزنوی نے اطراف ملک سے امداد حاصل کر کے غزنی پر حملہ کیا اور سیف الدین کو گرفتار کر کے نہایت بے دردی اور سخت اذتیوں کے ساتھ قتل کیا۔
اس کا حال جب تیسرے بھائی علاؤ الدین غوری کو معلوم ہوا تو وہ اپنے دونوں مقتول بھائیوں کے خون کا بدلہ لینے کے لیے غزنی پر حملہ آور ہوا۔ علاؤ الدین غوری اور اس کے ہم وطن نہایت جوش و خروش کے ساتھ غزنی کی طرف بڑھے تو بہرام غزنوی نے ان کو زرو جواہر کا لالچ دے کر واپس کرنا چاہا اور صلح و آشتی کی تمہید ڈالی، لیکن علاؤ الدین غوری اور اس کے ہمرائیوں کو جب یہ خیال آتا تھا کہ سیف الدین کو کس بیل پر سوار کر کے غزنی کے گلی کوچوں میں تشہیر کیا گیا تھا اور نہایت ظالمانہ طور پر اس کی جان نکالی گئی تھی تو وہ غیظ و غضب اور جوش انتقام میں دیوانے ہو جاتے تھے۔ اسی لیے بہرام کی تدبیر صلح