کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 723
کرنے پر آمادہ تھے۔ آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ مسعود نے حملہ کر کے غزنی کو فتح اور اپنے بھائی محمد کو قید کر لیا۔ قید کرنے کے بعد محمد کی دونوں آنکھوں کو بے بصارت کیا گیا۔
تخت غزنی پر جلوس کر کے سلطان مسعود نے بلوچستان و مکران پر حملہ کر کے اس علاقے کو بھی اپنی حکومت میں شامل کر لیا۔ کسی سلطنت میں جب دو شہزادے تخت کے لیے لڑا کرتے ہیں تو ضرور سلطنت کے ہر حصے میں سرکش اور باغی طاقتیں پیدا ہو جایا کرتی ہیں ۔ چنانچہ محمد بن محمود کے اندھا ہونے کے بعد سلطان مسعود بن محمود کو اس وسیع اور عظیم الشان سلطنت کا سنبھالنا دشوار ہو گیا سلجوقی ترکوں نے بتدریج ترقی پا کر خوارزم کے علاقے میں لوٹ مار شروع کر دی ادھر ہندوستان و پنجاب میں بھی یہاں کے بعض صوبہ داروں نے تمرد و سرکشی پر کمر باندھی اور یک لخت حکومت کا شیرازہ بکھرنے لگا۔ سلطان مسعود نے بڑی ہمت اور استقلال سے کام لیا۔ خوارزم و خراسان میں سلجوقیوں کو متواتر شکستیں دیں اور انہی حالات میں موقع نکال کر ہندوستان پر بھی حملہ آور ہوا اور سرستی و ہانسی کے زبردست قلعوں کو فتح کر کے مسمار کیا۔ ہندوستان سے فوراً غزنی کی طرف واپس گیا تو دیکھا کہ سلجوقی پہلے سے بھی زیادہ تعداد کے ساتھ بر سر مقابلہ ہیں ۔ مسعود نے ان کو ہر مرتبہ شکست دی لیکن وہ بھی ہر مرتبہ پھر سنبھل سنبھل کر اور لوٹ لوٹ کر مقابلے پر آتے رہے۔ سلطان مسعود کی فوج میں ہندؤں کی بہت بڑی تعداد بھرتی ہو گئی تھی اور کئی ہندو اس کی فوج میں سپہ سالاری کے عہدے پر فائز تھے جن کے ماتحت بہت سی ہندو پلٹنیں اور ہندو رسالے تھے۔ مسعود کو ہندؤں کی فوجیں تیار کرنے اور ان کو فوجی تعلیم دے کر شائستہ بنانے کا خاص شوق تھا۔ چنانچہ اس نے کئی ہندو سرداروں کو محض اس لیے ہندوستان بھیجا کہ وہ ہندوستان سے اپنے بھائی بندوں کو فوج میں بھرتی کر کے لائیں ۔ جب ہندوستان کے ہندو سپاہی غزنی پہنچے تو مسعود نے ایرانیوں اور افغانیوں سے زیادہ ان کی تنخواہیں مقرر کیں اور ایک شخص مسمی تلک کو امیر الامرائی اور مہاراجگی کا خطاب دے کر سپہ سالار اعظم بنایا۔ یہ مہاراجہ تلک ایک ہندو حجام کا لڑکا تھا۔ لہٰذا اس کے مرتبہ کو سب سے زیادہ رفیع دیکھ کر اکثر امرائے دربار سلطان مسعود سے بد دل ہو گئے اور انہوں نے حرف شکایت زبان پر لانا شروع کیا۔ سلطان مسعود کی اس ہندو نوازی پر اس لیے اور بھی سب کو تعجب تھا کہ مکران کی لڑائی میں ہندو پلٹنوں نے سخت بزدلی اور نامردی دکھائی تھی اور اس امتحان کے بعد ہرگز کسی کو توقع نہ تھی کہ سلطان مسعود اس طرح ہندؤں کا گرویدہ ہو جائے گا آخر خراسان کے ایک جنگل میں سلجوقیوں سے جب معرکہ آرائی ہوئی تو ان ہندو سپاہیوں نے سب سے پہلے فرار کی عار گوارا کر کے سلطان مسعود اور اس کی افغانی فوج کو خطرہ اور ہلاکت میں مبتلا کر دیا۔ چند جان نثاروں کی پامردی سے سلطان مسعود اپنی جان تو بچا لایا، مگر