کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 722
میں شامل تھے۔ مجد الدولہ دیلمی کو مغلوب و اسیر کر کے رے اور اصفہان کی ولایتوں پر بھی قبضہ کیا۔ ادھر ہندوستان پر بھی اس کو مجبوراً بہت سے حملے کرنے پڑے۔ جن کی اصل حقیقت اور تفصیلی کیفیت تاریخ ہند میں لکھی جائے گی۔ غرضیکہ محمود غزنوی نے بہت جلد دریائے ستلج سے لے کر بحیرہ کا سپین تک اور ماوراء النہر سے لے کر بلوچستان و عراق تک ایک نہایت وسیع سلطنت قائم کر لی۔ محمود غزنوی براعظم ایشیاء کے نہایت نامور اور زبردست شہنشاہوں میں شمار ہوتا ہے اس کے زمانے میں فارسی زبان کو خاص طور پر رونق حاصل ہوئی۔ عربی زبانوں کی ترویج و اشاعت میں جو مرتبہ حجاج بن یوسف ثقفی کو حاصل ہے وہی مرتبہ فارسی زبان کی ترویج و اشاعت میں محمود غزنوی کو حاصل ہے۔ محمود غزنوی نہایت سچا پکا مسلمان، بے تعصب اور علم دوست شخص تھا۔ لیکن تعجب ہے کہ بعض اغراض خاص یا موجودہ حکومت و سلطنت کی مصلحتوں نے اس کو ہمارے زمانے میں مذموم متعصب لالچی، ظالم، سفاک اور ہندوؤں کا دشمن جانی مشہور کر دیا ہے۔ ان جھوٹی اور گمراہ کن باتوں کی حقیقت تاریخ ہند میں بے پردہ کی جائے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ، اسی کے زمانے میں فردوسی نے شاہنامہ لکھا تھا۔ ۴۲۱ھ میں محمود غزنوی نے وفات پائی۔ سبکتگین اور محمود غزنوی کو دربار سامانیہ سے امیر الامرائی کا خطاب حاصل تھا۔ مگر ۳۸۹ھ میں محمود غزنوی نے اپنی خود مختاری کا اعلان کر کے عبدالملک سامانی کا نام خطبہ سے خارج کر دیا تھا اسی سال خلیفہ قادر باللہ عباسی نے اس کو یمین الدولہ کا خطاب عطا کیا تھا۔ محمود غزنوی ۹ محرم ۳۶۱ھ کو پیدا ہوا تھا۔ ساٹھ سال کی عمر میں فوت ہوا۔ محمود غزنوی اپنے زمانے میں سب سے زیادہ طاقتور مسلمان بادشاہ تھا۔ اس نے اپنی اسی وسیع سلطنت کا اپنے دونوں بیٹوں کے لیے وہی انتظام کیا تھا جو خلیفہ ہارون الرشید عباسی نے اپنے دونوں بیٹوں امین و مامون کے لیے کیا تھا۔ محمود غزنوی کے دونوں بیٹے بھی اسی طرح آپس میں لڑے جیسے کہ امین و مامون لڑے تھے، مگر جس طرح مامون الرشید اپنے بھائی امین الرشید پر غلبہ پا کر شوکت سلطنت کو باقی رکھ سکا۔ محمود کا بیٹا مسعود اپنے بھائی محمد پر غالب ہو کر سلطنت کی عظمت و شوکت کو باقی نہ رکھ سکا۔ محمود غزنوی نے ماوراء النہر، خراسان غزنی پنجاب وغیرہ کی حکومت اپنے چھوٹے بیٹے محمد کو دی تھی اور خوارزم، عراق، فارس و اصفہان وغیرہ ممالک بڑے بیٹے مسعود کو دیئے تھے۔ محمود کے فوت ہوتے ہی دونوں بھائیوں میں جھگڑا شروع ہوا۔ محمد غزنی کے تخت پر بیٹھا اور مسعود نے رے میں جلوس کیا۔ اول اس بات پر نزاع شروع ہوا کہ مسعود بڑا بھائی ہونے کی وجہ سے خواہان تھا کہ میرا نام خطبہ میں محمد سے پہلے لیا جائے۔ محمد کہتا تھا کہ میں باپ کے تخت پر بیٹھا ہوں ، میرا نام تمام ممالک میں خطبہ کے اندر مسعود سے پہلے پڑھا جائے۔ یہ تو صرف بہانہ تھا۔ دونوں بھائی ایک دوسرے کو زیر