کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 70
دوران سفر میں موصل و جزیرہ ہو کر گزرا اور اس صوبہ کے گورنر عبدالصمد بن علی کو معزول کر کے قید کر دیا اور اپنے بیٹے ہارون کو ،آذربائیجان، آرمینیا اور کل بلاد مغرب کا والی مقرر کیا، اور جزیرہ کی حکومت عبداللہ بن صالح کو عطا کی۔
رومیوں پر چڑھائی کرنے کا سبب یہ تھا کہ ۱۶۲ھ میں رومیوں نے بلاد اسلامیہ پر چڑھائی کر کے بعض شہروں کو ویران کر دیا تھا، اس لیے مہدی نے خود اس طرف لشکر کشی کی۔
اس سفر میں مہدی جب مسلمہ بن عبدالملک کے قصر کے مقابل پہنچا تو مہدی کے چچا عباس بن علی نے مہدی سے کہا کہ ایک مرتبہ آپ کے دادا محمد بن علی اس طرف کو ہوکر گزرے تھے تو مسلمہ نے ان کی دعوت کی تھی اور ایک ہزار دینار نذر کیے تھے، مہدی نے یہ سنتے ہی مسلمہ کے لڑکوں ، غلاموں اور جملہ متعلقین کو طلب کر کے بیس ہزار دینار مرحمت کیے اوران کے وظائف مقرر کر دیے۔
مہدی خود حلب میں پہنچ کر ٹھہر گیا اور ہارون کو فوج اور فوجی سرداروں کے ساتھ آگے روانہ کیا، ہارون کے ساتھ عیسیٰ بن موسیٰ، عبدالملک بن صالح ، حسن بن قحطبہ، ربیع بن یونس، یحییٰ بن خالد بن برمک تھے، مگر تمام لشکر کی سرداری اور رسد وغلہ کا انتظام سب ہارون ہی کے سپرد تھا، ہارون نے آگے بڑھ کر رومیوں کے قلعوں پر محاصرہ کیا اور یکے بعد دیگرے کئی قلعے فتح کر لیے، اس عرصے میں مہدی نے اطراف حلب کے زندیقوں کو چن چن کر قتل کیا، ہارون کو لے کر بیت المقدس کی زیارت کو گیا، مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھی، پھر بغداد کو واپس چلا آیا، مہدی نے جب ہارون کوآذربائیجان و آرمینیا کا گورنر بنایا تھا تو حسن بن ثابت کو اس کا وزیر مال اور یحییٰ بن خالد بن برمک کواس کا وزیر خارجہ مقرر کیا تھا، اسی سال یعنی ۱۶۳ھ میں خالد بن برمک کا انتقال ہوا۔
رومیوں پر ہارون کی دوسری چڑھائی:
۱۶۴ھ میں عبدالکبیر بن عبدالرحمن نے رومیوں پر فوج کشی کی تھی مگر بطریق میکائیل اور بطریق طارہ ارمنی نے نوے ہزار کی جمعیت سے مقابلہ کیا، عبدالکبیر بلا مقابلہ واپس چلا آیا، اس واقعہ سے وہ رعب جو ۱۶۳ھ کی حملہ آوری سے رومیوں پر قائم ہوا تھا زائل ہو گیا، مہدی نے سنا تو عبدالکبیر کو قید کر دیا اور ۱۶۵ھ میں اپنے بیٹے ہارون کو جہاد روم پر روانہ کیا اور اپنے امیر، حاجب اور معتمد خاص ربیع کو ہارون کے ہمراہ کر دیا، ہارون قریباً ایک لاکھ فوج لے کر رومیوں کے ملک پر حملہ آور ہوا اور برابر شکستیں دیتا، رومیوں کو قتل کرتا ان کے شہروں کو غارت کرتا ہوا قسطنطنیہ تک پہنچ گیا، ان دنوں قسطنطنیہ کے تخت پر ایک عورت مسماۃ غسطہ حکمران تھی جو قیصر الیوک کی بیگم تھی اور اپنے نابالغ بیٹے کی طرف سے حکومت کر رہی