کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 691
کیوک خان کی موت: چند روز کے بعد کیوک خان سمر قند جا کر فوت ہو گیا۔ جس زمانے میں اوکتائی خان زندہ تھا اس کا چھوٹا بھائی تولی خان جو چنگیز خان کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا۔ بھائی کے پاس رہتا اور اس کی فوج کا سپہ سالار تھا۔ تولی خان کو اوکتائی خان کے ساتھ بہت محبت تھی۔ ایک مرتبہ اوکتائی خان بیمار ہوا تو تولی خان نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ الٰہی میرے بھائی کو بچا دے، اور اگر اس کی موت کا زمانہ آ گیا ہے تو اس کی جگہ مجھ کو اٹھا لے۔ چنانچہ اسی روز سے اوکتائی خان تندرست اور تولی خان بیمار ہونے لگا۔ یہاں تک کہ اوکتائی خان بالکل تندرست ہو گیا اور تولی خان مر گیا۔ تولی خان کے چار بیٹے تھے۔ منکو خان، قویلا خان، ارتق بوقا، ہلاکو خان، ان چاروں بھتیجوں کو اوکتائی خان بہت عزیز رکھتا تھا۔ اس کے بعد کیوک خان بھی اپنے ان چچا زاد بھائیوں کے ساتھ بہت رعایت و مروت مرعی رکھتا تھا۔ کیوک خان کی وفات کے بعد خاندان چنگیزی میں باتو خان ابن جوجی خان بادشاہ قبچاق سب سے زیادہ طاقتور اور دانا سمجھا جاتا تھا۔ سب نے باتو خان کی طرف رجوع کیا کہ اب بتائیے کس کو تخت سلطنت پر بٹھایا جائے۔ باتو خان نے فیصلہ کیا کہ کیوک خان کے بعد اب منکو خان سے زیادہ اور کوئی مستحق سلطنت نہیں ہے۔ اکثر سرداروں نے اس کو پسند کیا، لیکن بعض نے اس کی مخالفت کی مگر معمولی زدو خورد کے بعد منکو خان کی حکومت و سلطنت قائم ہو گئی۔ منکو خان: منکو خان نے اپنے بھائی قویلا خان کوختا کی حکومت سپرد کی اور اپنے دوسرے بھائی ہلاکو خان کو ایک عظیم الشان فوج دے کر ایران کی طرف روانہ کیا۔ منکو خان کی رسم تخت نشینی ۶۴۸ھ میں ادا ہوئی تھی۔ منکو خان مسلمانوں کے ساتھ بہت رعایت کرتا اور ان کو سب سے زیادہ محبوب رکھتا تھا۔ منکو خان کی وفات: سات برس سلطنت کر کے ۶۵۵ھ میں فوت ہوا۔ اپنی سلطنت کے آخری سال میں منکو خان نے چین کے بادشاہ کو لکھا کہ تم اطاعت و فرما نبرداری اختیار کرو۔ اس نے انکار کیا منکو خان نے چین کے ملک پر چڑھائی کی۔ قویلہ خان: اسی سفر میں بمقام چنکد منکو خان کا انتقال ہوا اس کا بھائی قویلہ خان جو اس سفر میں بھائی کے ساتھ تھا امرائے لشکر کے اتفاق رائے سے بمقام چنکد تخت نشین کیا گیا۔ لیکن اس خبر کے پہنچنے پر ارتق بوقانے