کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 69
کا حکم دیا۔
اندلس میں چھیڑ چھاڑ:
مہدی کی طرف سے افریقہ کا گورنر عبدالرحمن بن حبیب فہری تھا، اس نے بربریوں کی ایک جمعیت لے کر اندلس کے ساحل مرسیہ میں پہنچ کر اندلس کے صوبہ سر قسطہ کے گورنر سلیمان بن یقطن کو خلافت عباسیہ کی دعوت دی، سلیمان نے اس تحریر کا کوئی جواب نہیں دیا، اسی اثنا میں امیر عبدالرحمن فہری نے سر قسطہ پر حملہ کیا، سلیمان نے شکست دے کر عبدالرحمن فہری کو پیچھے ہٹا دیا۔
اسی اثناء میں امیر عبدالرحمن فرمانروائے اندلس فوج لے کر آپہنچا، اس نے سب سے پہلے عبدالرحمن فہری کی کشتیوں کو جو ساحل پر کھڑی تھیں ، جلوا دیا، تاکہ فرار ہو کر نکل نہ جائے، اس کے بعد عبدالرحمن فہری کی طرف متوجہ ہوا، عبدالرحمن پریشان ہو کر بلنسیہ کے پہاڑ پر چڑھ گیا۔ امیر عبدالرحمن نے اعلان کر دیا کہ جو کوئی عبدالرحمن بن حبیب فہری کا سرکاٹ کر لائے گا اس کو ایک ہزار دینار انعام میں دیا جائے گا، اس کی خبر کہیں عبدالرحمن فہری کے ہمراہی کسی بربری کو بھی ہو گئی، وہ غفلت کی حالت میں عبدالرحمن کا سرکاٹ کر امیر عبدالرحمن کے پاس لے آیا اور انعام لے کر چل دیا، امیر عبدالرحمن کو عباسیوں کی اس فوج کشی سے اشتعال پیدا ہوا، اس نے جواباً ارادہ کیا کہ لشکر لے کر ساحل شام پر حملہ آور ہوا اور خلیفہ عباسی کو اس گستاخی کا مزا چکھائے مگر انہی ایام میں حسن بن یحییٰ بن سعید بن سعد بن عثمان انصاری نے سر قسطہ میں علم بغاوت بلند کیا، لہٰذا عبدالرحمن اموی فرمانروائے اندلس اس طرف متوجہ ہو گیا اور شام کا قصد ملتوی رہا۔
خلیفہ منصور عباسی کے زمانے سے اندلس میں خاندان بنوامیہ کی حکومت قائم ہو کر ایک الگ اسلامی حکومت کا دوسرا مرکز بن گیا تھا، اس وقت چونکہ سلسلہ شروع ہو چکا ہے، لہٰذا خلافت عباسیہ کے فرمانرواوں کا حال جب تک کہ ان کی فرمانروائی اندلس کے سوا تمام عالم اسلامی پر قائم رہی، اسی سلسلہ میں ختم کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے، اندلس کی حکومت کا حال اس کے بعد شروع سے الگ بیان کیا جائے گا، قارئین کرام منتظر رہیں ۔
جنگ روم و حملہ ہارون:
۱۶۳ھ میں مہدی نے خراسان اور دوسرے صوبوں سے لشکر فراہم کیا اور رومیوں پر جہاد کی غرض سے یکم رجب ۱۶۳ھ کو بغداد سے کوچ کیا، ۳۰، جمادی الثانی، یعنی ایک دن پہلے مہدی کے چچا عیسیٰ بن علی کا انتقال ہو گیا تھا، بغداد میں ہادی کو اپنی نیابت پر چھوڑا اور اپنے دوسرے بیٹے ہارون کو اپنے ہمراہ لیا،