کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 63
جواب دیا کہ جب تونگری اور بلاغت کسی شخص میں جمع ہو جاتی ہے تو اس کو خود پسند بنا دیتی ہے۔ مجھ کو تمہارے متعلق یہی خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ مناسب یہ ہے کہ تم بلاغت چھوڑ دو۔ عبدالرحمن زیاد افریقی، منصور کا طالب علمی کے زمانہ کا دوست تھا۔ وہ ایک مرتبہ منصور کی خلافت کے زمانہ میں اس سے ملنے آیا۔ منصور نے پوچھا کہ تم بنو امیہ کے مقابلہ میں میری خلافت کو کیسا پاتے ہو؟ عبدالرحمن نے کہا کہ جس قدر ظلم و جور تمہارے زمانہ میں ہوتا ہے، اتنا بنو امیہ کے زمانے میں نہ تھا۔ منصور نے کہا کہ کیا کروں مجھ کو مددگار نہیں ملتے۔ عبدالرحمن نے کہا کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اگر بادشاہ نیک ہو گا تو اس کو نیک لوگ ملیں گے اور فاجر ہو گا تو اس کے پاس فاجر ہوں گے۔ ایک مرتبہ منصور کو مکھیوں نے بہت تنگ کیا۔ اس نے مقاتل بن سلیمان کو بلایا اور کہا کہ ان مکھیوں کو اللہ تعالیٰ نے کیوں پیدا کیا ہے؟ مقاتل نے کہا کہ ظالموں کو ان کے ذریعہ سے ذلیل کرنے کے لیے۔ منصور کے زمانہ میں سریانی اور عجمی زبانوں سے کتابوں کا ترجمہ عربی زبان میں ہونے لگا۔ چنانچہ اقلیدس اور کلیلہ و دمنہ کا ترجمہ اسی کے عہد میں ہوا۔ سب سے پہلے منصور نے منجموں کو اپنا جلیس و مقرب بنایا۔[1] اسی کے عہد میں عباسیوں اور علویوں میں تلوار چلی، ورنہ اس سے پہلے علوی و عباسی متحد و متفق تھے۔ اپنے اخلاق و عادات اور اپنے اعمال و کارہائے نمایاں کے اعتبار سے منصور عباسی، عبدالملک اموی سے بہت ہی مشابہ ہے۔ وہ بھی خاندان مروان میں دوسرا خلیفہ تھا اور منصور بھی خاندان عباسی کا دوسرا خلیفہ تھا۔ عبدالملک نے بھی خلافت امویہ کو برباد و فنا ہوتے ہوتے بچا لیا۔ اسی طرح منصور نے بھی محمد و ابراہیم کے مقابلہ میں خلافت عباسیہ کو برباد ہوتے ہوتے بچا لیا، عبدالملک بھی عالم تھا، اسی طرح منصور بھی عالم تھا۔ عبدالملک بھی کفایت شعار اور بخل سے متہم تھا، اسی طرح منصور بھی کفایت شعاری اور بخل کے ساتھ بدنام تھا۔ حکومت بھی دونوں نے قریباً مساوی مدت تک کی۔ دونوں میں فرق صرف اس قدر تھا کہ منصور نے لوگوں کو امان دینے کے بعد بھی قتل کیا اور بد عہدی کے ساتھ متہم ہوا لیکن عبدالملک اس معاملہ میں بدنام نہیں ہوا۔ مہدی بن منصور: محمد المہدی بن منصور کی کنیت ابوعبداللہ تھی۔ بمقام ایدج ۱۲۶ھ میں پیدا ہوا۔ اس کی ماں کا نام
[1] اس پر سوائے انا للہ و انا الیہ راجعون کہنے کے اور کیا کیا جا سکتا ہے کہ خلیفۃ المسلمین جس نے مسلمانوں کی اصلاح اور دینی تربیت کے لیے کوشاں ہونا تھا، وہ خود بعض خرافات کا شکار ہو گیا۔