کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 62
مقبرہ معلاۃ میں منصور کو دفن کر دیا گیا، پھر ربیع نے منصور کی خبر وفات اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر و عصا اور خاتم خلافت کو مہدی کی خدمت میں روانہ کیا۔ یہ خبر ۱۵ ذی الحجہ سنہ ۱۵۸ھ کو بغداد میں مہدی کے پاس پہنچی۔ اہل بغداد نے بھی حاضر ہو کر مہدی کے ہاتھ پر بیعت کی۔ منصور نے ایک ہفتہ کم بائیس سال خلافت کی۔ سات بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑی۔ بیٹوں کے نام یہ ہیں : محمد مہدی، جعفر اکبر، جعفر اصغر، سلیمان، عیسیٰ، یعقوب، سالم اور بیٹی کا نام عالیہ تھا، جس کی شادی اسحاق بن سلیمان بن علی کے ساتھ ہوئی تھی۔ خلیفہ منصور سے کسی نے پوچھا کہ کوئی ایسی تمنا بھی ہے جو آپ کی اب تک پوری نہ ہوئی ہو؟ منصور نے کہا کہ صرف ایک تمنا باقی ہے، وہ یہ ہے کہ میں ایک چبوترے پر بیٹھا ہوں اور اصحاب حدیث میرے گرد بیٹھے ہوں ۔ دوسرے روز جب وزراء کاغذات اور معاملات کی مثلیں اور قلمدان لے کر اس کے پاس پہنچے تو اس وقت وہ دریافت کرنے والا مصاحب بھی موجود تھا۔ اس نے کہا کہ لیجیے! اب آپ کی یہ تمنا پوری ہو گئی۔ منصور نے کہا : یہ وہ لوگ نہیں جن کی تمنا مجھے ہے۔ ان لوگوں کے تو کپڑے پھٹے ہوئے، پاؤں برہنہ اور بال بڑھے ہوئے ہوتے ہیں اور روایت حدیث ان کا کام ہوتا ہے۔ منصور نے امام مالک رحمہ اللہ کو موطا کی تالیف پر آمادہ کیا تو ان سے اس طرح مخاطب ہوا کہ ’’اے ابو عبداللہ! تم جانتے ہو کہ اب اسلام میں تم سے اور مجھ سے زیادہ شریعت کا جاننے والا کوئی باقی نہیں رہا۔[1] میں تو خلافت و سلطنت کے ان جھگڑوں میں مبتلا ہوں ۔ تم کو فرصت حاصل ہے، لہٰذا تم لوگوں کے لیے ایک ایسی کتاب لکھو جس سے وہ فائدہ اٹھائیں ۔ اس کتاب میں ابن عباس کے جواز اور ابن عمر کے تشدد و احتیاط کو نہ بھرو اور لوگوں کے کلیے تصنیف و تالیف کا ایک نمونہ قائم کرو۔‘‘ امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ماشاء اللہ! منصور نے یہ باتیں کیا کہیں تصنیف ہی سکھا دی۔ عبدالصمد بن محمد نے منصور سے کہا کہ آپ نے سزا دینے پر ایسی کمر باندھی ہے کہ کسی کو گمان بھی نہیں ہوتا کہ آپ معاف کرنا بھی جانتے ہیں ۔ منصور نے جواب دیا کہ ابھی تک آل مروان کا خون خشک نہیں ہوا اور آل ابی طالب کی تلواریں بھی ابھی تک برہنہ ہیں ۔ یہ زمانہ ایسا ہے کہ ابھی تک خلفاء کا رعب ان کے دلوں میں قائم نہیں ہوا اور یہ رعب اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا، جب تک وہ عفو کے معانی نہ بھول جائیں اور سزا کے لیے ہر وقت تیار نہ رہیں ۔ زیاد بن عبداللہ حارثی نے منصور کو لکھا کہ میری تنخواہ اور جاگیر میں کچھ اضافہ کر دیا جائے اور اس عرض داشت میں اپنی تمام بلاغت ختم کر دی۔ منصور نے
[1] امام مالک رحمہ اللہ اپنے وقت کے جید ترین عالم تھے اور جمع احادیث کی سب سے پہلی کتاب مؤطا امام مالک ہے۔