کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 600
سے حمل ہے اور اب اسی بچہ کی جو رحم مادر میں ہے ہم کو بیعت کرنی چاہیے۔ چنانچہ بربریوں نے اس کی بیعت کی اور اس تمام علاقہ پر جو ادریس کی حکومت میں شامل ہو چکا تھا قبضہ و انتظام قائم رکھا، ایام حمل کے گذرنے پر اس بربری لونڈی کے پیٹ سے لڑکا پیدا ہوا۔ راشد نے لوگوں کو حکم دیا کہ اب اس لڑکے کے ہاتھ پر پھر بیعت کرو۔ چنانچہ سب نے بیعت اطاعت کی۔ راشد اس شیر خوار بچے کی طرف سے نیابتاً امور سلطنت انجام دیتا تھا۔ یہ راشد ہی کی عقل مندی اور دانائی تھی کہ اس نے اپنے آقا کے مرنے پر بھی حکومت کے نظام کو درہم برہم نہ ہونے دیا اور بربریوں کے مزاج سے پوری واقفیت حاصل کر کے حکومت کو قائم رکھا۔ جب اس لڑکے کا دودھ چھڑایا گیا۔ تو پھر ایک مرتبہ اس کے ہاتھ پر بیعت ہوئی۔ جب ۱۸۸ھ میں یہ لڑکا گیارہ سال کا ہو کر بارھویں سال میں داخل ہوا تو اس کے ہاتھ پر جامع مسجد بولیلی میں پھر بیعت کی گئی۔ اسی سال ابن اغلب حاکم افریقہ نے راشد کے خلاف بربریوں کو ابھارا اور انہوں نے راشد کو قتل کر ڈالا۔ مگر اس لڑکے کی اطاعت سے باہر نہ ہوئے۔ اس لڑکے کا نام بھی ادریس ہی رکھا گیا تھا جو ادریس ثانی یا ادریس اصغر کے نام سے مشہور ہوا۔ راشد کے بعد ابوخالد بن یزید بن الیاس عبدی ادریس اصغر کا اتالیق و نگراں مقرر ہوا۔ فتوحات: ادریس اصغر نے بہت جلد امور سلطنت سے واقف و آگاہ ہو کر قلم دان وزارت مصعب بن عیسیٰ ازدی کو سپرد کیا اور رفتہ رفتہ اپنی حدود سلطنت کو وسیع کر کے قریباً تمام ملک مراکش پر قبضہ کر لیا۔ اور نہایت خوبی کے ساتھ حکومت کرنے لگا بہت سے عرب، اندلس و افریقہ اور مصر و شام سے آ آکر ادریس اصغر کے پاس جمع ہونے لگے اور ان لوگوں کی وجہ سے حکومت و سلطنت میں رونق اور شان و شوکت کے آثار نمایاں ہو گئے اسحق بن محمد بن عبدالحمید کا ذکر اوپر آ چکا ہے وہ اس سلطنت ادریسیہ کے اعلیٰ اراکین میں شامل تھا اور اسی کی ابتدائی امداد و اعانت سے ادریس اول کو اپنی حکومت کے قائم کرنے میں بڑی آسانی ہوئی تھی مگر ۱۹۲ھ میں اس کو اس الزام میں قتل کر دیا گیا کہ وہ ابراہیم بن اغلب سے ساز باز رکھتا ہے اور اسی کے اشارے سے راشد مقتول ہوا تھا۔ بولیلی یا بولیہ جہاں اب تک درالحکومت تھا ایک چھوٹا سا مقام تھا۔ ۱۹۳ھ میں ادریس اصغر نے بولیلی سے مقام فاس میں آکر اس کے قریب ایک جدید شہر کی بنیاد ڈالی اور اسی کو اپنا دارالحکومت بنایا۔ اس عرصہ میں تلمسان کا علاقہ اس کے قبضے سے نکل گیا تھا۔ ۱۹۷ھ میں اس نے تلمسان کو فتح کیا اور اس کے نواحی علاقے کو اپنے تصرف میں لا کر ۱۹۰ھ تک تلمسان میں مقیم رہا۔ اس کے بعد وہ جب فاس کی طرف گیا تو بربروں نے پھر اپنی جبلی عادت کے موافق بغاوت اختیار کی اور