کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 60
۱۵۳ھ میں منصور نے حکم جاری کیا کہ میری تمام رعایا لمبی ٹوپیاں اوڑھا کرے۔ یہ ٹوپیاں بانس اور پتے سے بنائی جاتی تھیں ۔ اس زمانہ میں حبشی ان ٹوپیوں کو اوڑھا کرتے تھے۔ سنہ ۱۵۴ھ میں زفر بن عاصم نے بلاد روم پر حملہ کیا۔ سنہ ۱۵۵ھ میں قیصر روم نے مسلمانوں کے آئے دن کے حملوں سے تنگ آکر صلح کی درخواست پیش کی اور جزیہ دینے کا اقرار کیا۔ وفات منصور: سنہ ۱۵۸ھ میں منصور نے عامل مکہ کو لکھا کہ سفیان ثوری اور عباد بن کثیر کو قید کر کے بھیج دو۔ لوگوں کو سخت اندیشہ تھا کہ کہیں ان کو قتل نہ کر دے۔ حج کے دن قریب آ گئے تھے۔ منصور نے خود حج کا ارادہ کیا، اس سے اہل مکہ کو اور بھی تشویش ہوئی کہ یہاں آکر اللہ جانے کس کس کو گرفتار و قید اور قتل کرے؟ مگر اہل مکہ کی دعائیں قبول ہوئیں اور منصور مکہ تک پہنچنے سے پہلے ہی فوت ہوا۔ اس اجمال تفصیل کی یہ ہے کہ منصور نے ماہ ذیقعدہ سنہ ۱۵۸ھ میں بغداد سے بہ عزم حج کوچ کیا۔ بغداد سے رخصت ہوتے وقت اپنے بیٹے مہدی کو بغداد میں اپنا نائب بنا کر چھوڑا اور وصیت کی کہ ’’میری بیاضوں کے صندوقچہ کی بہت حفاظت کرنا اور ضرورتوں کے وقت اپنی مشکلا ت کے حل کی تدبیریں ان بیاضوں میں تلاش کرنا۔ شہر بغداد کی خوب حفاظت کرنا اور میرے بعد کبھی دارالخلافہ کسی دوسری جگہ تبدیل نہ کرنا۔ میں نے اس قدر خزانہ جمع کر دیا ہے کہ دس دس برس تک خراج کی ایک پائی بھی خزانہ میں داخل نہ ہو تو فوج کی تنخواہیں اور دوسرے تمام مصارف سلطنت کے لیے یہ خزانہ کفایت کرے گا۔ اپنے خاندان والوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا، ان کی عزت بڑھانا اور ان کو بڑے بڑے عہدے دینا۔ میں تم کو خراسانیوں کے ساتھ بہ حسن سلوک پیش آنے کی تاکید کرتا ہوں کیونکہ وہ تمہارے قوت بازو اور ایسے مددگار ہیں کہ انہوں نے تمہارے خاندان میں حکومت و سلطنت قائم کرنے کے لیے اپنی جان و مال صرف کر دیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ خراسانیوں کے دلوں سے تمہاری محبت کبھی نہ نکلے گی۔ ان کی لغزشوں سے درگزر کرنا، ان کے نمایاں کاموں پر ان کو انعام و اکرام سے خوش کرنا۔ خبردار! قبیلہ بنو سلیم کے کسی شخص سے کبھی مدد طلب نہ کرنا۔ عورتوں کو اپنے کاموں میں دخیل نہ بنانا۔ امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرنا، ناحق خون ریزی نہ کرنا۔ حدود الٰہی کی پابندی کرنا، ملحدین پر حملہ آور بدعتوں کو مٹانا، عدل کو قائم کرنا، اعتدال سے آگے قدم نہ بڑھانا، مال غنیمت لشکریوں کے لیے چھوڑ دینا کیونکہ تمہارے لیے میں کافی خزانہ چھوڑے جاتا ہوں ۔ سرحدوں کی پوری طور پر حفاظت کرنا، راستوں میں امن قائم کرنا، رعیت کے مال پر نظر رکھنا، جماعت کا ساتھ نہ چھوڑنا، سوار و پیادے جس قدر ممکن ہو تیار رکھنا۔ آج کا کام کل پر نہ اٹھا رکھنا۔ نزول