کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 581
نشین ہوا۔ ابن اسماعیل کی تخت نشینی کے بعد چونکہ قسطلہ کا بادشاہ جان فوت ہو چکا تھا۔ اس کے بیٹوں ، پوتوں نے بر سر اقتدار ہو کر ابن اسماعیل کے ساتھ پھر سلسلہ جنگ شروع کر دیا اور ۸۷۰ھ تک برابر عیسائیوں کے ساتھ مسلمانوں کی لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ان لڑائیوں میں سلطان ابن اسماعیل کے بیٹے ابوالحسن نے بڑی ناموری حاصل کی۔ ۸۷۰ھ میں ابن اسماعیل نے وفات پائی اور اس کا بیٹا ابوالحسن تخت نشین ہوا۔ سلطان ابوالحسن: سلطان ابولحسن چونکہ ایک تجربہ کار سپہ سالار بھی تھا۔ اس لیے تخت نشین ہو کر اس نے عیسائیوں کے ساتھ لڑائیوں کے سلسلہ کو بحسن و خوبی جاری رکھا۔ چند روز کے بعد مسلمانوں کی تباہی و بربادی کا یہ عجیب سامان ہوا کہ سلطنت قسطلہ کے نوجوان بادشاہ فرڈی نند کی شادی سلطنت ارغون کی شہزادی ازبیلا کے ساتھ ہوئی اور اس شادی کے ساتھ ہی ارغون کی سلطنت، قسطلہ کی سلطنت میں شامل ہو کر ایک زبردست عیسائی سلطنت بن گئی۔ فرڈی نند اور ازبیلا دونوں بے حد متعصب اور پادری مزاج واقع ہوئے تھے۔ اس لیے انہوں نے مل کر اس بات کا تہیہ کیا کہ جزیرہ نمائے اندلس سے اسلامی سلطنت کا نام و نشان مٹا دینا چاہیے اور اس جزیرہ نما میں ایک بھی مسلمان قسم کھانے کو زندہ نہ چھوڑنا چاہیے۔ ادھر فرڈی نند اور ازبیلا میں یہ قرار داد ہو رہی تھی۔ ادھر سلطان ابوالحسن نے مصلحت وقت سمجھ کر اس عیسائی سلطنت کے ساتھ صلح کی سلسلہ جنبانی شروع کی۔ چنانچہ فرڈی نند نے ۸۸۰ھ میں سلطان ابوالحسن کو لکھا کہ اگر تم صلح کے خواہاں ہو تو بلا عذر ہم کو خراج دینا منظور کرو۔ ابوالحسن کی جگہ اگر کوئی دوسرا سلطان غرناطہ کے موجودہ تخت پر ہوتا تو وہ شاید ایسا سخت جواب نہ دے سکتا مگر ابوالحسن نے فرڈی نند کو لکھا کہ غرناطہ کے دار الضرب میں اب بجائے سونے کے سکوں کے فولادی شمشیریں تیار ہوتی ہیں تاکہ عیسائیوں کی گردنیں اڑائی جائیں ۔ اس جوان مردانہ جواب نے چند روز کے لیے فرڈی نند کو مبہوت و مرعوب بنا دیا اور بظاہر کئی سال تک سلسلہ جنگ ملتوی رہا۔ سلطان ابوالحسن نے مصمم ارادہ کر لیا کہ ہم اس ملک میں آزاد و خود مختار رہیں گے اور عیسائیوں کا محکوم بننے کے عوض موت کو ترجیح دیں گے فرڈی نند اور ازبیلا جو دونوں مل کر فرائض و فرماں روائی ادا کرتے تھے۔ تیاری میں مصروف رہے۔ عیسائی تیاریوں کا حال سن کر ابوالحسن نے خود ہی ۸۸۶ ھ میں سلطنت قسلطلہ کے قلعہ صخرہ پر جو دریائے وادی الکبیر کے کنارے نہایت مضبوط قلعہ تھا۔ اور فرڈی نند کے دادا نے مسلمانوں سے فتح کیا تھا حملہ کیا اور ایک ہی شب کے محاصرے کے بعد بجبر و قہر عیسائیوں سے چھین لیا۔ اس جگہ یہ بات یاد رکھنے