کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 58
سکونت پذیر ہو کر خاموش زندگی بسر کرنے لگا۔ رفتہ رفتہ منصور کے راستے کی تمام مشکلات دور ہو گئیں اور سوائے ایک ملک اندلس کے تمام ممالک اسلامیہ میں سنہ ۱۴۸ھ کے اندر منصور کی حکومت مستحکم طور پر قائم ہو گئی۔ سنہ ۱۴۹ھ میں شہر بغداد کی تعمیر بھی تکمیل کو پہنچ گئی۔ مذکورہ بالا واقعات و حادثات کے سبب سے رومیوں پر جہاد کرنے کا موقع مسلمانوں کو نہ ملا تھا۔ سنہ ۱۴۹ھ میں عباس بن محمد حسن بن قحطبہ اور محمد بن اشعث نے رومیوں پر چڑھائی کی اور دور تک قتل و غارت کرتے ہوئے چلے گئے۔ خروج استاد سیس: سنہ ۱۵۰ھ میں استاد سیس نامی ایک شخص خراسان میں مدعی نبوت ہوا۔ خراسان میں ہزار ہا اشخاص نے فوراً اس کی نبوت کو تسلیم کر لیا۔ ہرات، بادغیس اور سیستان وغیرہ کے لوگ اس کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو گئے اور خراسان کے اکثرحصہ پر اس نے قبضہ کر یا۔ یہ خبر سن کر منصور بہت فکر مند ہوا۔ مرورود کا حاکم مسمی جثم یہ حالت دیکھ کر استاد سیس پر اپنے پورے لشکر کے ساتھ حملہ آور ہوا اور شکست فاش کھا کر مقتول ہوا۔ اس کے بعد خازم بن خزیمہ نے خدعہ حرب سے کام لے کر استاد سیس کی فوج کو بیچ میں لے کر دو طرف سے حملہ کیا۔ استاد سیس کے ستر ہزار ہمراہی میدان جنگ میں قتل ہوئے اور وہ ۱۴ ہزار ہمراہیوں کے ساتھ ایک پہاڑ میں محصور کر لیا گیا۔ عرصہ تک محاصرہ جاری رہنے کے بعد استاد سیس نے اپنے آپ کو مع ہمراہیوں کے خازم بن خزیمہ کے سپرد کر دیا۔ استاد سیس کی گرفتاری کے بعد منصور کو اطلاع دی گئی۔ تعمیر رصافہ: جس زمانہ میں استاد سیس نے خروج کیا تو خراسان کا گورنر مہدی تھا۔ وہ مرو میں مقیم تھا۔ خازم بن خزیمہ اسی کے پاس مقیم تھا اور منصور کے حکم کے موافق حملہ آور ہوا تھا۔ اس فتنہ سے فارغ ہو کر مہدی، منصور کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت تک فوج کا غالب عنصر عربی قبائل تھے اور ہر ایک معرکہ میں عربی ہی کی شمشیر خار اشگاف کے ذریعہ سے فتح و فیروزی حاصل ہوتی تھی۔ عجمیوں اور خراسانیوں کو عربوں کی ہمسری کا دعویٰ نہ تھا۔ ان عربی قبائل سے ہمیشہ اندیشہ رہتا تھا کہ اگر یہ مخالفت پر متحد ہو گئے تو حکومت کو ذرا سی دیر میں الٹ دیں گے۔ امام ابراہیم نے سب سے پہلے اس بات کو قبل از وقت محسوس کر کے عجمیوں کو طاقتور بنانے اور ان سے کام لینے کی پالیسی ایجاد کی تھی۔ اس کے جانشین بھی اسی خیال پر قائم رہے۔ چنانچہ عبداللہ سفاح نے ابو سلمہ کو قتل کرا کر خالد بن برمک کو جو بلخ کے آتش کدہ نو باہر کا مغ زادہ نو مسلم اور ابو مسلم کا ایک فوجی سردار تھا، اپنا وزیر بنایا تھا۔ چند روز کے بعد خالد بن برمک کسی ولایت کا