کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 577
سلطان یوسف ثالث : یوسف ثالث نے تخت نشین ہوتے ہی اپنے ایک سردار عبداللہ کو فرڈی نند کے پاس بھیج کر مدت صلح کو دو سال تک کے لیے وسیع کرا لیا۔ جب یہ دو سال کی مدت ختم ہونے لگی تو سلطان یوسف ثالث نے اپنے بھائی علی کو شاہ قسطلہ کے پاس بطور سفیر بھیج کر مدت صلح میں اور توسیع چاہی سلطان کی اس صلح جوئی کو عیسائیوں نے کمزوری پر محمول کر کے کہا کہ اگر تمہارا سلطان ہم کو خراج دینا قبول کر لے تو ہم اس درخواست کو منظور کر سکتے ہیں ۔ علی نے عیسائیوں کی اس درخواست کو نامنظور کر کے غرناطہ کی جانب مراجعت کی۔ اس کے بعد فرڈی نند نے فوج گراں لے کر حدود سلطنت غرناطہ پر حملہ کیا۔ نہایت سخت و شدید جنگ ہوئی اور ایک حصہ سلطنت غرناطہ کا عیسائیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ ابھی یہ لڑائی ختم نہ ہوئی تھی کہ سلطنت فاس (مراکش) کے ایک لشکر نے اپنے شہزادہ ابوسعید کی قیادت میں قلعہ جبل الطارق پر حملہ کیا۔ اس حملہ کا حال سن کر سلطان یوسف ثالث نے اپنے بھائی احمد کو فوج دے کر جبل الطارق کو بچانے کے لیے روانہ کیا۔ وہاں دونوں شہزادوں میں صلح ہو گئی اور ابوسعید شہزادہ احمد کے ساتھ بطور مہمان غرناطہ چلا آیا۔ مراکش کے بادشاہ نے جو شہزادہ ابوسعید کا بڑا بھائی تھا یوسف ثالث کو لکھا کہ کسی طرح ابوسعید کو وہیں قتل کرا دو۔ یوسف ثالث نے ابوسعید کو اس کے بھائی کا خط دکھایا اور اس کو بتایا کہ تمہارے بھائی نے تم کو قتل کرانے کے لیے جبل الطارق پر حملہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ ابوسعید نے ۸۲۰ھ میں سلطان یوسف ثالث سے مدد لے کر اور اندلس ہی میں ہر قسم کا سامان مہیا کر کے مراکش پر حملہ کیا اور اپنے بھائی کو بے دخل کر کے خود تخت نشین ہوا اور اپنے محسن سلطان یوسف ثالث کا شکریہ ادا کیا۔ اسی سال یعنی ۸۲۰ھ میں جان بادشاہ قسطلہ نے بالغ ہو کر عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لی اور اپنے چچا فرڈی نند کو معزول کر دیا اور اپنی ماں کے مشورے کے موافق یوسف ثالث سے صلح قائم کی۔ یوسف ثالث اس قدر منصف مزاج اور عادل شخص تھا کہ اکثر عیسائی سردار اپنے آپس کے نزاعوں میں یوسف ثالث ہی کو حکم قرار دیتے۔ اور اس کے فیصلے کو بخوشی قبول کر لیتے تھے سلطان یوسف ثالث نے ۸۲۳ھ میں اس جہان فانی سے کوچ کیا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا محمد ہشتم تخت نشین ہوا۔ سلطان محمد ہشتم نے تخت نشین ہوتے ہی سلطنت قسطلہ اور سلطنت مراکش دونوں سے صلح و دوستی کے عہد ناموں کی تجدید کی اور امیر یوسف کو جس کے بزرگ غرناطہ کے قاضی ہوتے آئے تھے اپنا وزیر اعظم بنایا۔ یہ وزیر بڑا لائق شخص تھا۔ مگر محمد ہشتم نے نااہلوں کی صحبت اور سفلہ پروری اختیار کی۔ جس سے رعایائے غرناطہ بہت بد دل ہوئی۔ آخر محمد نہم نے موقع پا کر غرناطہ پر قبضہ کر لیا۔ محمد ہشتم غرناطہ سے بھاگ