کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 574
محمد پر حملہ کیا اور قتل کر ڈالا۔ سلطان کے ہمرا ہی اس کی لاش کو مالقہ لائے اور یہیں دفن کر دیا۔ سلطان یوسف: سلطان محمد مقتول کا بھائی یوسف تخت نشین ہوا۔ سلطان یوسف کی عمر تخت نشینی کے وقت صرف سولہ سال کی تھی مگر یہ نہایت عقل مند باخدا اور بہادر شخص تھا۔ اس نے نہایت قابلیت کے ساتھ سلطنت کو سنبھالا اور انپے بھائی کے قاتلوں سے انتقام لے کر امور سلطنت کو نہایت عمدگی سے انجام دیا عیسائیوں نے جبل الطارق اور اس کے نواح میں پھر حملہ آوری اور چھیڑ چھاڑ شروع کی۔ سلطان یوسف نے ابوالحسن مرینی شاہ مراکش کو توجہ دلائی۔ ابوالحسن مرینی نے اپنے بیٹے کو فوج دے کر جبل الطارق کی طرف بھیجا۔ ادھر سے سلطان یوسف بھی پہنچ گیا۔ جنگ ہوئی عیسائیوں نے شکست پائی جب مراکشی لشکر واپس جانے لگا تو عیسائیوں نے دھوکا دے کر ایک سخت حملہ کیا۔ اس میں مسلمانوں کا بہت نقصان ہوا۔ ۷۴۰ھ میں سلطان ابوالحسن خود ساٹھ ہزار فوج لے کر اندلس آیا۔ ادھر سے سلطان یوسف بھی اس کی امداد و اعانت کو پہنچ گیا۔ عیسائیوں نے اسلامی لشکر کی چڑھائی کا حال سن کر پہلے سے خوب تیاری کر لی تھی۔ طریف کے متصل ایک میدان میں جنگ عظیم برپا ہوئی… عیسائیوں کی فوج تعداد اور سامان جنگ میں بہت زیادہ تھی۔ اس لڑائی میں مسلمانوں کو ہزیمت ہوئی اور ایک بڑی تعداد نے جام شہادت نوش کیا۔ عیسائیوں نے سلطنت غرناطہ کے ایک حصہ پر قبضہ کر لیا۔ سلطان ابوالحسن مراکش کو واپس گیا اور یوسف نے غرناطہ میں آکر پناہ لی۔ اس لڑائی میں بڑے بڑے علماء وزہاد جو شامل لشکر تھے شہید ہوئے۔ انہی شہداء میں لسان الدین ابن الخطیب کے باپ عبداللہ سلمان بھی تھے۔ ۷۴۹ھ میں سلطان یوسف نے لسان الدین ابن الخطیب کو اپنا وزیر اعظم بنایا اور عیسائیوں سے انتقام لینے کی تیاریوں میں مصروف رہا۔ ۷۵۵ھ میں سلطان یوسف عیسائیوں پر جہاد کے لیے تیار ہو چکا تھا۔ عید کے روز جب کہ سلطان نماز عید ادا کر رہا تھا۔ سجدہ کی حالت میں ایک مجہول الاحوال شخص نے نیزہ مار کر سلطان کو شہید کر دیا۔ قصر حمراء میں اس کو دفن کیا گیا۔ سلطان محمد غنی باللہ: یوسف کے بعد اس کا بیٹا محمد تخت نشین ہوا اور غنی باللہ کا لقب اختیار کیا۔ تخت نشینی کے چند روز بعد سلطان محمد نے لسان الدین ابن الخطیب کو ابوسالم بن ابوالحسن مرینی شاہ مراکش کے پاس بھیجا کہ اس کو عیسائیوں کے خلاف امداد پر آمادہ کر لے۔ ابو سالم نے فوج بھیج دی اور عیسائیوں سے معمولی لڑائیاں ہوئیں مگر کوئی قابل تذکرہ نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ حاجب السلطنت رضوان نامی اس بادشاہ کے مزاج میں دخیل