کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 560
کر کے عزت و حرمت کے ساتھ شہر میں واپس بھیجا اور اسی وقت طلیطلہ سے کوچ کر کے قرطبہ میں چلا آیا۔ الفانسو نے منصور کے روانہ ہونے کے بعد اپنے سفیروں کو اقرار اطاعت اور عہد نامہ کی تحریر و تکمیل کے لیے روانہ کیا جو قرطبہ میں حاضر دربار ہوئے۔ منصور کے پاس جو تیس چالیس ہزار عیسائی قیدی تھے ان کو منصور نے مراکش میں بھیج کر آباد کرا دیا۔ اور ان کا ایک الگ قبیلہ قرار دیا گیا۔ منصور نہایت نیک طینت عابد و زاہد اور متبع سنت فرماں روا تھا۔ اس کے حکم سے جہری نمازوں میں امام الحمد سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی بالجہر پڑھتے تھے۔ ابوالولید ابن رشد نے ۵۹۴ھ کے آخری ایام میں منصور کے عہد حکومت میں مراکش کے اندر وفات پائی ماہ صفر ۵۹۵ھ میں منصور قریباً پندرہ سال کی فرماں روائی کے بعد فوت ہوا۔ اسی سال انگلستان کا بادشاہ رچرڈ فوت ہوا۔
ابو عبداللہ محمد:
منصور کی وفات کے بعد اس کا بیٹا ابو عبداللہ محمد ماہ صفر ۵۹۵ھ میں بعمر سترہ سال تخت نشین ہوا اور اپنا لقب ناصر لدین اللہ رکھا۔ بادشاہ ناصر کے عہد حکومت میں مراکش کے مشرقی ممالک میں بغاوت و بدامنی پیدا ہوئی اور سلطنت مرابطین کے بعض متوسلین نے جمعیت فراہم کر کے ملکوں پر قبضہ کرنا شروع کیا ناصر اس بغاوت و بدامنی کے رفع کرنے کو مراکش میں مقیم رہا۔ ادھر سلطان صلاح الدین ایوبی سے شام و فلسطین کے میدانوں میں شکست کھا کر جو بقیتہ السیف عیسائی یورپ کے ملکوں میں واپس آئے۔ انہوں نے شام و فلسطین کی ہزیمتوں کا انتقام اندلس و مراکش کی اسلامی سلطنت سے لینا چاہا اور برشلونہ و کیسٹل و لیون وغیرہ کے عیسائی سلاطین کے پاس یورپ کے ہر ملک سے عیسائی جنگ جو آ آکر کر جمع ہوئے۔ روم کے پوپ نے سلطنت موحدین کے خلاف جہاد کا عام اعلان کیا۔ انہی ایام میں انگلستان کے بادشاہ جان کے خلاف انگلستانی امراء نے کوشش شروع کی اور پوپ انوسنٹ سوم نے بادشاہ جان کے ملت عیسوی سے خارج ہونے کا اعلان کیا۔ جان نے اپنے تین سرداروں کا ایک وفد ناصر لدین اللہ کے پاس مراکش روانہ کیا۔ اس سفارت میں ٹامس ہارڈنگٹن۔ ریلف قرنکولس اور لندن کا پادری رابرٹ شامل تھے۔ یہ سفارت ۶۰۶ھ میں مراکش پہنچی۔ ارکان سفارت کئی ایوان اور ڈیوڑھیوں میں سے گذرتے ہوئے جن کے دونوں طرف شاہی خدام کی صفیں استادہ تھیں امیر ناصر لدین اللہ کے سامنے پہنچے۔ اس وقت امیر موصوف مطالعہ کتب میں مصروف تھا۔ ارکان وفد نے شاہ انگلستان کا خط پیش کیا۔ اس خط میں لکھا تھا کہ آپ میری مدد کریں اور میرے ملک کی بغاوت فرو کرنے کے لیے فوجیں بھیج دیں ۔ یہ بھی لکھا تھا کہ میں دین عیسوی کو ترک کر کے مسلمان ہونے پر آمادہ ہوں ۔ پادری رابرٹ اس سفارت کا پیشوا تھا۔ اس نے