کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 559
الفانسو ثانی بادشاہ طلیطلہ پنج سالہ صلح کے دوران میں مسلمانوں کی حملہ آوری سے تو بالکل مطمئن تھا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ مسلمان وعدہ کے خلاف کبھی حملہ آور نہیں ہو سکتے اس عرصہ میں اس نے خوب فوجی تیاریاں کیں ۔ دوسرے عیسائی سلاطین کو اپنی مدد کے لیے آمادہ کیا اور اپنی اس تیاری کو بھی مثل صلیبی جنگوں کے مذہبی جہاد قرار دے کر بآسانی ہر قسم کی امداد و اعانت عیسائیوں سے حاصل کی۔ مدت صلح کے گذرنے پر ماہ رجب ۵۹۱ھ میں کئی عیسائی سلاطین اور ان کی فوجوں کو ہمراہ لیے ہوئے مقام مالار کو علاقہ بطلیوس میں پہنچا تھا کہ ادھر سے منصور مقابلہ پر پہنچ گیا۔ بڑے زور شور کی لڑائی ہوئی۔ عیسائیوں کے مقابلے میں اسلامی فوج کی تعداد بہت ہی تھوڑی تھی۔ مگر عیسائی اپنی فوج کے ایک لاکھ ۴۶ ہزار آدمیوں کو قتل اور تیس ہزار کو قید کرا کر میدان جنگ سے فرار ہوئے۔ یہ بہت بڑی اور نہایت عظیم الشان فتح تھی، جو منصور کو حاصل ہوئی اور اس نے عیسائیوں کی ہمتوں کو بہت کچھ پست کر دیا۔ اس لڑائی میں ڈیڑھ لاکھ خیمے، اسی ہزار گھوڑے، ایک لاکھ خچر اور چار لاکھ باربر داری کے گدھے اور ساٹھ ہزار مختلف وضع کے زرہ بکتر مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔ جس سے بآسانی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ عیسائیوں کی تیاریاں کیسی مکمل اور عظیم الشان تھیں اور منصور کے خلاف الفانسو دوم نے کیسی زبردست طاقت فراہم کی تھی۔ منصور نے یہ تمام مال غنیمت جس میں بہت سازر و جواہر بھی شامل تھا۔ سب اپنی فوج میں سپاہیوں کو تقسیم کر دیا۔
الفانسو دوم اس میدان سے بھاگ کر اپنی بقیہ فوج کے ساتھ قلعہ رباح میں پناہ گزیں ہوا۔ منصور بھی پاشنہ کوب پہنچا اور اس قلعے کا محاصرہ کیا۔ الفانسو یہاں سے بھاگ کر طلیطلہ میں آیا اور اس شرم انگیز شکست کے غم و غصہ میں سر وریش کو منڈوا ڈالا اور صلیب کو اٹھا کر قسم کھائی کہ جب تک ان لاکھوں عیسائی مقتولوں کا انتقام نہ لے لوں گا اس وقت تک عیش و آرام کو حرام سمجھوں گا۔ منصور کو جب معلوم ہوا کہ الفانسو نے طلیطلہ میں جا کر اس طرح قسم کھائی ہے اور وہ دوبارہ جنگی تیاریوں میں مصروف ہے تو وہ بلا توقف طلیطلہ پر حملہ آور ہوا اور شہر کا محاصرہ کر کے قلعہ شکن توپوں سے فصیل و قلعہ کی دیواروں کو چھلنی کر دیا۔ قریب تھا کہ شہر اور الفانسو دونوں منصور کے قبضے میں آ جائیں لیکن اس سقیم حالت میں الفانسو ثانی نے اپنی حمیت و غیرت کا یہ نمونہ دکھایا کہ اپنی ماں اور بیوی اور بیٹیوں کو منصور کے پاس بھیجا۔ یہ عورتیں سر برہنہ روتی ہوئی منصور کے سامنے آئیں اور الفانسو کی ماں نے اپنے بیٹے کے لیے عفو تقصیرات کی درخواست کرتے ہوئے اس قدر آہ و زاری کی کہ منصور اس نظارہ کی تاب نہ لا سکا۔ آنسوؤں کے دریا نے خون کے دریا پر غلبہ حاصل کیا اور قہر و غضب کو صفت رحم سے مغلوب ہونا پڑا۔ منصور نے الفانسو کی ماں اور بیوی اور بیٹیوں کی بہت دل دہی اور تشفی کی ان کو گراں بہا زیورات اور انعام و اکرام سے مالا مال