کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 558
تنقید کرنے اور اس کی کمزوریاں ظاہر کرنے والے شخص ہیں ۔ آج بھی ابن رشد کے نام سے یورپ اور تمام علمی دنیا کا بچہ بچہ واقف ہے۔ ابو یعقوب کے عہد حکومت میں مراکش سے طرابلس تک ممالک افریقہ اور تمام ملک اندلس جزیرہ صقلیہ اور بحر روم کے دوسرے جزائر سب سلطنت موحدین میں شامل ہو گئے تھے اور سلطنت موحدین کا فرماں روا دنیا کے عظیم الشان سلاطین میں شمار ہوتا تھا۔
ابویوسف منصور :
ابو یعقوب کے بعد اس کا بیٹا ابو یوسف منصور تخت نشین ہوا۔ تخت نشینی کے وقت منصور کی عمر ۳۲ سال کی تھی۔ یہ ایک عیسائی عورت ساحرہ نامی کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا۔ منصور کے عہد حکومت میں اندلس کے اندر ہر طرح مسلمانوں کو رفاہیت و غلبہ حاصل رہا۔ منصور ہر طرح اپنے باپ سے مشابہ تھا۔ علماء و فضلاء کا بے حد قدر دان اور کتابوں کا شائق تھا۔ جس طرح ابو یعقوب کبھی اندلس اور کبھی مراکش میں رہا۔ اسی طرح منصور نے بھی اپنی حکومت کا اکثر زمانہ اندلس میں گذارا۔ ۵۴۵ھ میں منصور نے اندلس کے مغربی حصے سے عیسائیوں کے اثر کو بالکل مٹا دیا اور الفانسو ثانی بادشاہ طلیطلہ نے منصور کی خدمت میں پانچ سال کے لیے صلح کی درخواست پیش کی۔ منصور نے اس درخواست کو منظور کر لیا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ عیسائی یورپ کے ہر ایک ملک سے جمع ہو ہو کر شام و فلسطین پر حملہ آور ہو رہے تھے۔ الفانسو دوم شاہ طلیطلہ کو یہ خوف تھا۔ کہ کہیں منصور میرا نام و نشان نہ مٹا دے۔ اس لیے اس نے پنج سالہ صلح کی درخواست منظور کرا کر اپنا اطمینان کیا کہ اس عرصہ میں صلیبی مجاہدین فارغ ہو کر میری مدد پر پہنچ سکیں گے۔ خود اندلس کے عیسائی شام و فلسطین کے صلیبی حملوں میں بکثرت شامل ہوتے تھے۔
منصور کی بحری طاقت بھی چونکہ بہت زبردست تھی اس لیے سلطان صلاح الدین ایوبی نے منصور کے پاس اپنا ایک سفیر عبدالرحمن ابن منقد نامی جو اعلیٰ درجہ کا شاعر بھی تھا بھیجا اور ایک خط منصور کے نام اس سفیر کے ہاتھ روانہ کیا۔ جس میں لکھا تھا کہ عیسائی فوجیں فلسطین پر حملہ آور ہوئی ہیں ۔ اس وقت اگر اپنے جنگی جہازوں کو مسلمانوں کی امداد کے لیے بھیجو اور ساحل فلسطین کی حفاظت کے کام میں اعانت کرو تو بڑی آسانی سے عیسائیوں کو شکست دی جا سکتی ہے۔ اس خط میں سلطان صلاح الدین نے منصور کو امیرالمومنین کے خطاب سے مخاطب نہیں کیا تھا، کیونکہ سلطان صلاح الدین صرف خلیفہ بغداد ہی کو امیر المومنین خلیفۃ المسلمین سمجھتے تھے۔ اتنی سی بات پر منصور کبیدہ خاطر ہوا۔ ابن منقد کی بظاہر خوب خاطر مدارات کی اور ایک قصیدے کے صلہ میں ابن منقد کو چالیس ہزار درہم انعام کے دیئے مگر سلطان صلاح الدین نے جو امداد طلب کی تھی اس کے دینے میں لیت و لعل اور پس و پیش کیا۔