کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 552
ایسی شکست دی کہ وہ اپنی آدھی فوج ضائع کر کے برشلونہ کی طرف بھاگ گیا۔ غرناطہ اور اس کے نواح میں عیسائی زیادہ آباد تھے اور وہ ہمیشہ مسلمانوں کی مخالفت اور عیسائی سلاطین کی کامیابی کے لیے سازشوں میں مصروف رہتے تھے۔ ان حالات سے واقف ہو کر علی بن یوسف نے ۵۱۶ھ میں خود اندلس میں آکر بہت سے عیسائیوں کو جو غرناطہ اور اس کے نواح میں سکونت پذیر تھے افریقہ کی جانب بھیج دیا۔ بعض کو اندلس کے دوسرے مقامات میں منتقل کر دیا۔
۵۲۰ھ میں ابو طاہر تمیم بن یوسف نے اپنے بیٹے تاشفین بن علی بن یوسف بن تاشفین کو اندلس کا وائسرائے مقرر کیا۔ ۳۶ برس سات مہینے مراکش و اندلس پر حکومت کرنے کے بعد ماہ رجب ۵۳۷ھ میں علی بن یوسف کا انتقال ہوا۔
ابو محمد تاشفین:
اس کی جگہ اس کا بیٹا ابو محمد تاشفین تخت نشین ہوا ۵۱۶ھ میں علی بن یوسف آخری مرتبہ اندلس میں آیا تھا، اس کے بعد اس کو اندلس میں آنا نصیب نہ ہوا، بلکہ وہ محمد بن عبداللہ المعروف بہ مہدی موعود کے جھگڑوں نہیں مصروف رہا۔ یہ جدید دشمن جو ملک مراکش میں پیدا ہوا تھا اور جس کا مفصل حال آگے آتا ہے دم بدم ترقی کرتا رہا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ علی کا بیٹا ابو محمد تاشفین بھی باپ کے بعد تخت نشین ہوتے ہی مراکش کے اندرونی ہنگامے میں اس طرح مصروف ہوا کہ اندلس کی طرف متوجہ نہ ہو سکا۔‘‘
تاشفین بن علی:
۵۳۷ھ میں جب تاشفین بن علی اندلس سے مراکش جا کر باپ کی جگہ تخت نشین ہوا تو اس نے یحییٰ بن علی بن غانیہ کو اندلس کا وائسرائے مقرر کیا تھا۔ یحییٰ نے جہاں تک ممکن ہوا اندلس کو بچایا۔ اور عیسائیوں کے زور کو گھٹانے میں مصروف رہا۔ ادھر دم بدم سلطنت مرابطین میں ضعف وانحطاط کے علامات نمودار ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ ۲۷ رمضان ۵۳۹ھ میں تاشفین بن علی بحالت ناکامی اور مایوسی عبدالمومن سے شکست کھا کر فوت ہوا۔
ابراہیم بن تاشفین:
اس کے بعد اس کا بیٹا ابو اسحق ابراہیم بن تاشفین بن علی بن یوسف بن تاشفین شہر مراکش میں تخت نشین ہوا۔ لیکن ۵۴۱ھ میں عبدالمومن نے مراکش کو فتح کیا اور ابراہیم بن تاشفین کو گرفتار کر کے قتل کر دیا۔ اس طرح سلطنت مرابطین کا خاتمہ ہوا۔ اندلس میں جب عبدالمومن کے چیرہ دست ہونے اور مرابطین کے مغلوب و مجبور ہونے کی خبریں پہنچیں تو عیسائیوں نے پھر بڑے زور شور کے ساتھ اسلامی