کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 550
عیسائیوں کی سرحد پر واقع ہیں ، تاکہ مسلمانوں کے قبضے سے نکل کر کوئی مقام عیسائیوں کے قبضے میں نہ جا سکے، اس حکم کی تعمیل کی گئی اور سب سے پہلے سیر بن ابی بکر نے ابن ہود بادشاہ سرقسطہ کی طرف توجہ کی، یہ وہ زمانہ تھا کہ سرقسطہ اس سے پہلے ہی عیسائیوں کے قبضے میں جا چکا تھا، سرقسطہ کا مسلمان بادشاہ مقام روطہ میں مقیم اور اسی کے نواحی علاقے پر قابض تھا، روطہ کو سیر نے بہ آسانی فتح کر لیا، اس کے بعد ماہ شوال ۴۸۴ھ میں عبدالرحمن بن طاہر سے مرسیہ چھین کر اس کو افریقہ کی جانب بھیج دیا گیا، اس کے بعد المیریہ اور بطلیوس پر بھی قبضہ کر لیا گیا، پھر قرمونہ، بیجہ، بلات، ملاقہ، قرطبہ وغیرہ مقامات کو تسخیر کیا، معتمد بادشاہ اشبیلیہ نے مرابطین کے خلاف جنگ کی تیاری شروع کی، یہی سب سے بڑا طاقتور بادشاہ تھا جو اندلس میں باقی رہ گیا تھا، اس نے الفانسو چہارم سے بھی امداد طلب کی، چنانچہ الفانسو نے عیسائیوں کی ایک فوج معتمد کی مدد کے لیے بھیج دی، اس امدادی فوج کے آنے کا حال سن کر سپہ سالار سیر بن ابی بکر نے فوراً ایک طرف اشبیلیہ کا محاصرہ کیا اور دوسری طرف ایک سردار کو عیسائی لشکر کی روک تھام کے لیے روانہ کر دیا، اس سردار نے عیسائیوں کو شکست دے کر بھگا دیا، ادھر سیر بن ابی بکر نے اشبیلیہ کو فتح کر کے معتمد کو مع اہل خاندان قید کر کے افریقہ بھیج دیا، جہاں وہ نظر بندی کی حالت میں رہنے لگا اور ۴۸۸ھ ماہ ربیع الاول میں فوت ہوا۔ تمام اندلس پر یوسف بن تاشفین کا قبضہ: ۴۸۵ھ میں تمام اسلامی اندلس یوسف بن تاشفین کے تحت و تصرف میں آ گیا اور طوائف الملوکی کا خاتمہ ہو کر یوسف بن تاشفین بادشاہ مرابطین کے وائسرائے اور گورنر اندلس پر حکمرانی کرنے لگے، اس طرح وہ ملک جو پارہ پارہ ہو کر عیسائیوں کے قبضے میں جانے والا تھا، مراکش کے مسلمان بادشاہ کے قبضہ میں آکر محفوظ ہو گیا اور عیسائیوں کی امیدیں خاک میں مل گئیں ، اب بھی عیسائی جزیرہ نما کے شمالی علاقوں پر قابض تھے، لیکن اندلس کا بڑا حصہ اور آباد و زرخیز جنوبی علاقہ مسلمانوں کے زیر حکومت تھا، یوسف بن تاشفین کو ۴۷۹ھ میں خلیفہ بغداد مقتدی بامر اللہ نے امیر المسلمین کا خطاب اور خلعت و علم بھیجا تھا۔ یوسف بن تاشفین کی وفات: اندلس پر قبضہ حاصل ہونے کے بعد امیر المسلمین یوسف بن تاشفین پندرہ سال تک زندہ رہا، اور محرم ۵۰۰ھ میں فوت ہوا۔ یہ زمانہ اندلس میں امن و امان کا گزرا۔ اگرچہ اندلس کے عربی النسل باشندے مرابطین کی حکومت و سلطنت سے اس لیے کبیدہ خاطر رہے کہ وہ بریری لوگوں کو اپنے اوپر حکمران دیکھنا پسند نہ کرتے تھے، لیکن یہ ان کی غلطی تھی۔ اگر بربری مسلمان ان پر حکمران نہ ہوتے تو ان کو عیسائیوں کی