کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 55
اس کے لیے میدان کو تنگ کر دیا۔ جس کی وجہ سے ابراہیم کے بہت سے لشکری جی کھول کر مقابلہ بھی نہ کر سکے۔ آخر بے ترتیبی کے ساتھ نکل نکل کر بھاگنے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ابراہیم کے ساتھ صرف چار سو آدمی باقی رہ گئے۔ ان لوگوں کو عیسیٰ، حمید محمد اور جعفر نے چاروں طرف محیط ہو کر نقطہ پر کار بنا لیا۔ آخر ابراہیم کے گلے میں ایک تیر آکر لگا جو بہت کاری تھا۔ ہمراہیوں نے گھوڑے سے اتار لیا اور چاروں طرف حلقہ کر کے مقابلہ اور مدافعت میں مصروف رہے۔ حمید بن قحطبہ نے اپنی رکابی فوج کو پوری طاقت سے حملہ کرنے کا حکم دیا اور ابراہیم کے ہمراہیوں کو مغلوب و منتشر کر کے ابراہیم کا سر اتار کر عیسیٰ کی خدمت میں پیش کیا۔ عیسیٰ نے منصور کی خدمت میں بھیج دیا۔ ۲۵ ذیقعدہ سنہ ۱۴۵ھ کو یہ حادثہ وقوع پذیر ہوا۔ اس کے بعد حسن بن ابراہیم بن عبداللہ کو بصرہ سے گرفتار کر کے قید کیا۔ اس کے ساتھ ہی یعقوب بن داؤد کو بھی قید کر دیا گیا۔
مختلف واقعات:
محمد مہدی اور اس کے بھائی کے قتل سے فارغ ہو کر منصور نے بصرہ کی حکومت سالم بن قتیبہ باہلی کو دی اور موصل کی حکومت پر اپنے لڑکے جعفر کو بھیجا اور اس کے ساتھ حرث بن عبداللہ کو سپہ سالار بنا کر روانہ کیا۔
امام مالک رحمہ اللہ نے مدینہ میں لوگوں کو محمد مہدی کی بیعت کرنے کی ترغیب دی تھی۔ ان کو کوڑوں سے پٹوایا گیا۔ امام ابو حنفیہ رحمہ اللہ نے عراق میں ابراہیم بن عبداللہ کی حمایت میں فتویٰ دیا تھا۔ اس لیے ان کو منصور نے گرفتار کرا کر بلوایا اور بغداد میں لے جا کر کہ اس کی تعمیر کا سلسلہ جاری تھا، قید کر دیا۔ اس قید میں اینٹوں کے گنوانے کی خدمت بطور مشقت ان سے لی جاتی تھی۔ یہ بھی روایت ہے کہ منصور نے ان کو عہدۂ قضا سپرد کرنا چاہا۔ انہوں نے جب انکار کیا تو منصور نے خشت شماری کا کام ان کے سپرد کیا۔ اسی حالت میں سہ ۱۵۰ھ تک مصروف و مقید رہ کر وہ فوت ہو گئے۔ ان کے علاوہ اور علماء نے بھی مثلاً ابن عجلان اور عبدالحمید بن جعفر وغیرہ نے محمد مہدی اور ان کے بھائی ابراہیم کی بیعت کے لیے فتوے دیے تھے، ان سب علماء کو بھی اسی قسم کی سزائیں دی گئیں ۔
۱۴۶ھ میں علاقہ خزر کے ترکوں نے علم بغاوت بلند کیا اور باب الابواب سے آرمینیا تک مسلمانوں کو قتل و غارت کرتے ہوئے چلے آئے۔ اسی سال جزیرۂ قبرص پر مسلمانوں نے بحری حملہ کیا۔ سیستان کے علاقہ میں خارجیوں نے شورش و بغاوت کی تو منصور نے یمن کی گورنری سے تبدیل کر کے معن بن زائدہ کو سیستان کی حکومت پر بھیج دیا۔ وہاں معن بن زائدہ نے تمام شورش و فساد کو فرو کیا، سنہ ۱۵۱ھ تک وہاں رہا، آکر دھوکے سے خارجیوں نے اس کو قتل کر دیا۔