کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 51
علی بن عبداللہ بن جعفر اور قاسم بن حسن بن زید بن حسن بن علی بن ابی طالب کے ہاتھ منصور کی خدمت میں روانہ کیا۔ یہ حادثہ ۱۵ رمضان المبارک یوم دو شنبہ سنہ ۱۴۵ھ عصر و مغرب کے درمیان وقوع پذیر ہوا۔ محمد مہدی کی لاش کو عیسیٰ بن موسیٰ نے مدینہ و ثنیۃ الوداع کے درمیان سولی پر لٹکا دیا۔ اس کی بہن زینب نے اجازت حاصل کر کے اس لاش کو لے کر بقیع میں دفن کر دیا۔
اس لڑائی میں محمد مہدی کا بھائی موسیٰ بن عبداللہ، حمزہ بن عبداللہ بن محمد بن علی بن حسین اور علی پسران زید بن علی بن حسین بن علی اور زید پسران محمد بن زید پسران حسن بن زید بن حسن، محمد مہدی کے ساتھ تھے اور تعجب کی بات یہ ہے کہ آخر الذکر علی و زید کے باپ حسن بن زید بن حسن، منصور کے مددگار تھے۔ اسی طرح بہت سے ہاشمی و علوی ایسے تھے کہ باپ ایک طرف مصروف جنگ ہے تو بیٹا دوسری طرف سے لڑ رہا ہے۔ غالباً بنو امیہ کے قتل اور ان کی بربادی کے نظارے دیکھ کر بہت سے علوی سہم گئے تھے۔ جیسا کہ علی بن حسین (زین العابدین) کربلا کا نظارہ دیکھ کر اس قدر متاثر تھے کہ کبھی بنوامیہ کے خلاف کوئی کام نہیں کیا اور بنو امیہ کی اہمیت و موافقت ہی کا اظہار فرماتے رہے۔ اسی طرح علویوں کے اکثر با اثر افراد بنو عباس کی مخالفت کو موجب تباہی جاننے لگے تھے۔ محمد مہدی کی شکست و ناکامی محض اس وجہ سے ہوئی کہ خود اس کے خاندان والوں والوں نے اس کا ساتھ نہیں دیا، اہل خاندان کے ساتھ نہ دینے کا یہ اثر ہوا کہ اور بھی بہت سے لوگ اس سے الگ رہے۔ چنانچہ محمد مہدی نے جس وقت مدینہ میں لوگوں سے بیعت لی اور رباح بن عثمان کو قید کرکے اپنی خلافت کا اعلان کیا تو اسماعیل بن عبداللہ بن جعفر کو بھی جو معتبر آدمی تھے، بیعت کے لیے بلوایا۔ انہوں نے جواب میں کہلوا بھیجوایا کہ ’’بھتیجے! تم مارے جاؤ گے، میں تمہاری بیعت کیسے کروں ۔‘‘
اسماعیل بن عبداللہ کے اس جواب کو سن کر بعض اشخاص جو بیعت کر چکے تھے، پھر گئے اور حمادہ بنت معاویہ نے اسماعیل بن عبداللہ کے پاس آکر کہا کہ آپ کے اس کلام سے بہت سے آدمی محمد مہدی سے جدا ہو گئے ہیں مگر میرے بھائی ابھی تک ان کے ساتھ ہیں ۔ مجھ کو ڈر ہے کہ کہیں وہ بھی نہ مارے جائیں ۔ غرض رشتہ داروں اور خاندان والوں کی علیحدگی نے محمد مہدی کو زیادہ طاقتور نہ ہونے دیا اور نہ بہت زیادہ ممکن تھا کہ خلافت پھر حسن رضی اللہ عنہ کی اولاد میں آ جاتی۔ اگر محمد مہدی اس وقت طرح دے جاتا اور مدینہ سے بچ کر نکل جاتا یا ابھی خروج میں جلدی نہ کرتا اور اپنے بھائی ابراہیم کے خروج کا انتظار کرتا کہ دونوں بھائی ایک ہی وقت میں نکلتے تو بھی کامیابی یقینی تھی مگر منصور اور خاندان عباسیہ کی خوش قسمتی تھی کہ عباسی لشکر کو محمد اور ابراہیم دونوں کا مقابلہ یکے بعد دیگرے کرنا پڑا اور ان کی طاقت تقسیم ہونے سے بچ گئی۔