کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 49
متعین کر دیا کہ بعد ہزیمت محمد مہدی مکہ کی طرف نہ جا سکیں ۔ اس کے بعد محمد مہدی کے پاس پیغام بھیجا کہ خلیفہ منصور تم کو امان دیتے اور کتاب و سنت کے فیصلہ کی طرف بلاتے ہیں اور بغاوت کے انجام سے ڈراتے ہیں ۔
محمد مہدی نے جواب میں کہلا بھیجا کہ میں ایک ایسا شخص ہوں جو قتل کے خوف سے کبھی نہیں بھاگا۔ ۱۲ رمضان المبارک سنہ ۱۴۵ھ کو عیسیٰ بن موسیٰ آگے بڑھ کر مقام جرف میں آکر خیمہ زن ہوا۔ ۱۴ رمضان المبارک کو اس نے ایک بلند مقام پر کھڑے ہو کر بلند آواز سے کہا کہ ’’اے اہل مدینہ! میں تم کو امان دیتا ہوں اگر تم میرے اور محمد مہدی کے درمیان حائل نہ ہو اور غیر جانبدار ہو جاؤ۔‘‘ اہل مدینہ اس آواز کو سن کر گالیاں دینے لگے۔ عیسیٰ واپس چلا گیا۔ دوسرے دن پھر اسی مقام پر لڑائی کے ارادے سے گیا اور اپنے سرداروں کو مدینہ کے چاروں طرف پھیلا دیا۔ محمد مہدی بھی مقابلہ کے لیے میدان میں نکلا۔ ان کا عَلم عثمان بن محمد بن خالد بن زبیر ( رضی اللہ عنہ ) کے ہاتھ میں تھا جبکہ ان کا شعار ’’احد احد‘‘ تھا۔ محمد مہدی کی طرف سے ابو غلمش سب سے پہلے میدان میں نکلا اور للکار کر اپنا ہم نبرد طلب کیا۔ عیسیٰ کی طرف سے یکے بعد دیگرے کئی نامور بہادر اس کے مقابلہ کو نکلے اور سب مارے گئے۔ اس کے بعد جنگ مغلوبہ شروع ہوئی۔ طرفین سے بہادری کے نہایت اعلیٰ اور انتہائی نمونے دکھائے گئے۔ ان لڑنے والی دونوں فوجوں کے سپہ سالاروں نے بھی شمشیر زنی اور صف شکنی میں حیرت انگیز جواں مردی کا اظہار کیا۔ اس کے بعد عیسیٰ کے حکم سے حمید بن قحطبہ نے پیادوں کو لے کر خندق کے قریب کی دیوار کا رخ کیا۔ محمد مہدی کے ہمراہیوں نے تیر بازی سے اس کو روکنا چاہا مگر حمید نے اس تیر بازی میں اپنے آپ کو مستقل رکھ کر پیش قدمی کو جاری رکھا اور بڑی مشکل سے دیوار تک پہنچ کر اس کو منہدم کر دیا اور خندق کو بھی طے کر کے محمد مہدی کی فوج سے دست بہ دست لڑائی شروع کر دی۔
عیسیٰ کو موقع مل گیا، اس نے فوراً خندق کو کئی مقامات سے پاٹ کر راستے بنا دیے اور سوار ان لشکر خندق کو عبور کر کے محمد مہدی کی فوج پر حملہ آور ہوئے اور بڑے گھمسان کی لڑائی ہونے لگی۔ محمد مہدی کی فوج بہت ہی تھوڑی تھی اور حملہ آور لشکر تعداد میں کئی گنا زیادہ اور آسمان حرب و اسلحہ جنگ سے خوب آراستہ تھا مگر صبح سے لے کر نماز عصر تک برابر تلوار چلتی رہی۔ محمد مہدی نے اپنے ہمراہیوں کو عام اجازت دی کہ جس کا جی چاہے، وہ اپنی جان بچا کر چلا جائے۔ محمد مہدی کے ہمراہیوں نے بار بار اور بہ اصرار کہا کہ اس وقت آپ اپنی جان بچا کر بصرہ یا مکہ کی طرف چلے جائیں اور پھر سامان و جمعیت فراہم کر کے میدانی جنگ کریں مگر محمد مہدی نے ہر ایک کو یہی جواب دیا کہ تم اگر اپنی جان بچانا چاہو تو چلے جاؤ لیکن