کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 47
سزا دی۔ تم کو معلوم ہے کہ ہم لوگوں کی بزرگی جاہلیت میں حجاج کے پانی پلانے کی وجہ سے تھی اور یہ بات تمام بھائیوں میں صرف عباس رضی اللہ عنہ ہی کو حاصل تھی۔ تمہارے باپ نے اس کے متعلق ہم سے جھگڑا کیا۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ہمارے حق میں فیصلہ کیا۔ پس اس کے مالک جاہلیت اور اسلام میں ہم ہی رہے۔ جن دنوں مدینہ میں قحط پڑا تھا تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے رب سے پانی مانگنے میں ہمارے ہی باپ کے ذریعہ سے توسل کیا تھااور اللہ تعالیٰ نے پانی برسایا تھا۔[1] حالانکہ تمہارے باپ اس وقت موجود تھے، ان کا توسل نہیں کیا۔ تم جانتے ہو کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو بنی عبدالمطلب میں سے کوئی شخص سوائے عباس رضی اللہ عنہ کے باقی نہ تھا۔ پس وراثت چچا کی طرف منتقل ہو گئی، پھر بنی ہاشم میں سے کئی شخصو ں نے خلافت کی خواہش کی مگر سوائے عباس رضی اللہ عنہ کی اولاد کے کوئی کامیاب نہ ہوا۔ سقایت تو ان کی تھی ہی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث بھی ان کی طرف منتقل ہو گئی اور خلافت ان کی اولاد میں آگئی۔ غرض دنیا و آخرت اور جاہلیت و اسلام کا کوئی شرف باقی نہ رہا، جس کے وارث و مورث عباس رضی اللہ عنہ نہ ہوئے ہوں ۔ جب اسلام پھیلا تو عباس رضی اللہ عنہ کو بہ اکراہ نہ نکالا جاتا تو ابو طالب و عقیل بھوکے مر جاتے اور عتبہ و شیبہ کے برتن چاٹتے رہتے، لیکن عباس رضی اللہ عنہ ان کو کھانا کھلا رہے تھے۔ انہوں نے ہی تمہاری آبرو رکھی، غلامی سے بچایا۔ کھانے، کپڑے کی کفالت کرتے رہے، پھر جنگ بدر میں عقیل کو فدیہ دے کر چھڑایا۔ پس تم ہمارے سامنے کیا تفاخر جتاتے ہو۔ ہم نے تمہارے عیال کی کفر میں بھی خبر گیری کی، تمہارا فدیہ دیا، تمہارے بزرگوں کی ناموس کو بچایا اور ہم خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث ہوئے۔ تمہارا بدلہ بھی ہم نے لیا اور جس چیز سے تم عاجز ہو گئے تھے اور حاصل نہ کر سکتے تھے، اس کو ہم نے حاصل کر لیا … والسلام‘‘
تفاخر نسبی کے معاملہ میں بے شک محمد مہدی کی طرف سے ابتدا ہوئی تھی اور منصور نے جو کچھ لکھا تھا جواباً لکھا تھا، مگر منصور اس کے جواب میں حد سے بڑھ گیا تھا۔ محمد مہدی نے عباس رضی اللہ عنہ کی نسبت کچھ نہیں لکھا تھا۔ منصور نے بلا وجہ علی رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخانہ الفاظ لکھے۔ منصور نے یہ بھی سخت بہتان باندھا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کو خلافت حاصل کرنے کے لیے دن کے وقت باہر نکالا۔ حسن رضی اللہ عنہ کی شان میں بھی منصور نے بڑی بدتمیزی اور گستاخی کی تھی۔ انہوں نے خلافت کو فروخت نہیں کیا بلکہ انہوں نے مسلمانوں کے دو گروہوں میں جو آپس میں لڑتے تھے، اتفاق اور صلح کو قائم کر کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیش گوئی کو پورا کیا تھا۔ عباس رضی اللہ عنہ نے ضرور ابی طالب کی امداد کی تھی اور عقیل کو اپنے پاس رکھ کر پرورش کرتے تھے لیکن ایسی باتوں کا زبان پر لانا اور طعنہ دینا شرفاء کا کام نہیں بلکہ اس قسم
[1] صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلي اللَّه عليه وسلم حدیث ۳۷۴۶۔