کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 45
نہیں کیا۔ اگر اللہ تعالیٰ مردوں میں سے کسی کو بہ وجہ قرابت برگزیدہ کرتا تو عبداللہ بن عبدالمطلب کو اور بے شک وہ ہر طرح بہتر تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کے لیے جس کو چاہا، با اختیار کیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿اِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ وَ ہُوَ اَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ﴾ (القصص : ۲۸/۵۶) اور جب اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چار چچا موجود تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ: ﴿وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ﴾ (الشعراء ۲۶ : ۲۱۴) نازل فرمائی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرایا اور دین حق کی طرف بلایا۔ ان چاروں میں سے دو نے اس دین حق کو قبول کر لیا، جن میں سے ایک میرا باپ تھا اور دو نے دین حق کے قبول کرنے سے انکار کیا۔ ان میں سے ایک تمہارا باپ (ابوطالب) تھا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کا سلسلہ ولایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقطع کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں اور ان دونوں میں کوئی عزیزداری اور میراث قائم نہ کی۔ حسن رضی اللہ عنہ کی بابت جو تم نے یہ لکھا ہے کہ عبدالمطلب سے ان کا دوہرا سلسلہ قرابت ہے اور پھر تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوہرا رشتہ قرابت ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیر الاولین و الآخرین ہیں ۔ ان کو ہاشم و عبدالمطلب سے ایک پدری تعلق تھا۔ تمہارا یہ خیال ہے کہ تم بہترین بنو ہاشم ہو اور تمہارے ماں باپ ان میں زیادہ مشہور تھے اور تم میں عجمیوں کا میل اور کسی لونڈی کا لگاؤ نہیں ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ تم نے کل بنو ہاشم سے اپنے آپ کو زیادہ اچھا بنایا ہے۔ ذرا غور تو کرو، تم پر تف ہے۔ کل اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دو گے۔ تم نے حد سے زیادہ تجاوز کیا اور اپنے آپ کو اس سے بہتر بتایا جو تم سے ذات و صفات میں بہتر ہے، یعنی ابراہیم بن رسول اللہ بالخصوص تمہارے باپ کی اولاد میں کوئی بہتر و افضل اور اہل فضل سوائے کنیز زادوں کے نہیں ۔ وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تم میں علی بن حسین یعنی امام زین العابدین سے افضل کوئی شخص پیدا نہیں ہوا اور وہ کنیز کے لڑکے تھے اور بلاشبہ تمہارے دادا حسن بن حسن سے بہتر ہیں ۔ ان کے بعد تم میں کوئی شخص محمد بن علی کی مانند پیدا نہیں ہوا۔ ان کی دادی کنیز تھیں اور وہ تمہارے باپ سے بہتر ہیں ۔ ان کے لڑکے جعفر تم سے بہتر ہیں اور ان کی دادی کنیز تھیں ۔ تمہارا یہ کہنا غلط ہے کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے: ﴿مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ﴾ (الاحزاب ۳۳:۴۰) ہاں تم ان کی لڑکی کے لڑکے ہو اور بے شک یہ قرابت قریبہ ہے مگر اس کو میراث نہیں پہنچ سکتی اور نہ یہ ولایت کی وارث ہو سکتی ہے اور نہ اس کو امامت جائز ہے۔ پس اس قرابت کے ذریعہ سے تم کس طرح وارث ہو سکتے ہو؟ تمہارے باپ نے ہر طرح اس کی خواہش کی تھی۔ فاطمہ( رضی اللہ عنہا ) کو دن میں نکالا، ان کی بیماری کو چھپایا