کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 44
بن کر حکومت حاصل کرنے کو نکلے اور اسی لیے کامیاب ہوئے۔ ہمارا باپ علی امام تھا۔ تم اس کی ولایت کے وارث کس طرح ہو گئے؟ حالانکہ ان کی اولاد موجود ہے۔ تم یہ بھی جانتے ہو کہ ہم جیسے شریف و صحیح النسب لوگوں نے حکومت کی خواہش نہیں کی۔ ہم ملعونوں اور مردودوں کے بیٹے نہیں ہیں ۔ بنو ہاشم میں کوئی شخص بھی قرابت و سابقیت و فضیلت میں ہمارا ہمسر نہیں ۔ زمانۂ جاہلیت میں ہم فاطمہ بن عمرو کی اولاد سے ہیں اور اسلام میں فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ہم کو تم سے برتر و بہتر بنایا ہے۔ نبیوں میں ہمارے باپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو سب سے افضل ہیں اور سلف میں علی رضی اللہ عنہ ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور ازواج مطہرات میں سب سے پہلے خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے قبلہ کی طرف نماز پڑھی۔ لڑکیوں میں فاطمہ سیدۃ النساء رضی اللہ عنہا دختر رسول اللہ ہیں جن کو جنت کی عورتوں پر فضیلت حاصل ہے۔ مولو دین اسلام میں حسن و حسین رضی اللہ عنہما ہیں جو اہل جنت کے سردار ہیں ۔ ہاشم سے علی رضی اللہ عنہ کا دوہرا سلسلہ قرابت ہے اور حسن رضی اللہ عنہ کا عبدالمطلب سے دوہرا سلسلہ قرابت ہے۔ میں بہ اعتبار نسب کے بہترین بنی ہاشم ہوں ۔ میرا باپ بنی ہاشم کے مشاہیر میں سے ہے۔ مجھ میں کسی عجمی کی آمیزش نہیں اور نہ مجھ میں کسی لونڈی باندی کا اثر ہے۔ میں اپنے اور تمہارے درمیان اللہ تعالیٰ کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ اگر تم میری اطاعت اختیار کر لو گے تو میں تم کو تمہاری جان و مال کی امان دیتا ہوں اور ہر ایک بات سے جس کے تم مرتکب ہو چکے ہو، درگزر کرتا ہوں مگر کسی حد کا حدود اللہ سے یا کسی مسلمان کے حق یا معاہدہ کا میں ذمہ دار نہ ہوں گا، کیونکہ اس معاملہ میں جیسا کہ تم جانتے ہو میں مجبور ہوں ۔ یقینا میں تم سے زیادہ مستحق خلافت اور عہد کا پورا کرنے والا ہوں ۔ تم نے مجھ سے پہلے بھی چند لوگوں کو مانا اور قول دیا تھا۔ پس تم مجھے کون سی امان دیتے ہو؟ آیا امان ابن ہبیرہ کی یا امان اپنے چچا عبداللہ بن علی کی یا امان ابو مسلم کی؟‘‘
منصور کے پاس جب یہ خط پہنچا تو اس نے بہت پیچ و تاب کھایا اور ذیل کا خط لکھ کر محمد مہدی کے پاس روانہ کیا :’’میں نے تمہارا خط پڑھا۔ تمہارے فخر کا دارومدار عورتوں کی قرابت پر ہے جس سے جاہل بازاری لوگ دھوکا کھا سکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو چچاؤں ، باپوں اور ولیوں کی طرح نہیں بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے چچا کو باپ کا قائم مقام بنایا ہے اور اپنی کتاب میں اس کو قریب ترین ماں پر مقدم کیا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ عورتوں کی قرابت کا پاس و لحاظ کرتا تو آمنہ (مادر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) جنت میں داخل ہونے والوں کی سردار ہوتیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مرضی کے موافق جس کو چاہا برگزیدہ کیا اور تم نے جو فاطمہ ام ابی طالب کا ذکر کیا ہے تو اس کی حالت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے کسی لڑکے اور کسی لڑکی کو اسلام نصیب