کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 42
کوئی جنگی مظاہرہ بھی نہیں کیا تھا، ان تمام باتوں کو ذہن میں رکھو اور سوچو کہ بنو امیہ نے کسی علوی کو اس طرح محض شبہ میں گرفتار کر کے قتل نہیں کیا بلکہ ان کے ہاتھ سے وہی علوی قتل ہوئے جو میدان جنگ میں لڑتے ہوئے مارے گئے، مگر منصور نے بالکل بے گناہ اولاد حسن رضی اللہ عنہ کے کتنے افراد کس قساوت قلبی اور بے دردی کے ساتھ قتل کیے ہیں ، منصور کا یہ قتل سادات جرم و گناہ کے اعتبار سے یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے قتل حسین سے بہت بڑھ چڑھ کر نظر آتا ہے، شاید اسی کا نام دنیا ہے جس کی ہوس میں انسان اندھا ہو کر ہر ایک ناشدنی کام کر گزرتا ہے۔ محمد مہدی نفس ذکیہ کا خروج: جب منصور نے عبداللہ بن حسن اور دوسرے افراد آل حسن رضی اللہ عنہ کو قتل کرادیا تو محمد مہدی نے اس خبر کو سن کر زیادہ انتظار کرنا مناسب نہ سمجھا، ان کو یہ بھی یقین تھا کہ لوگ ہمارا ساتھ دینے اور منصور کی خلع خلافت کرنے کے لیے ہر جگہ تیار ہیں ، چنانچہ انہوں نے اپنے مدینہ کے دوستوں سے خروج کا مشورہ کیا، اتفاقاً عامل مدینہ رباح کو جاسوسوں کے ذریعہ اس کی اطلاع ہو گئی کہ آج محمد مہدی خروج کرنے والے ہیں ، اس نے جعفر بن محمد بن حسین رضی اللہ عنہما اور حسین بن علی بن حسین اور چند قریشیوں کو بلا کر کہا کہ اگر محمد مہدی نے خروج کیا تو میں تم کو قتل کر دوں گا، ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ تکبیر کی آواز آئی اور معلوم ہوا کہ محمد مہدی رحمہ اللہ نے خروج کیا ہے، ابتدائً ان کے ساتھ صرف ڈیڑھ سو آدمی تھے، انہوں نے سب سے پہلے قید خانہ کی طرف جا کر محمد بن خالد بن عبداللہ قسری اور اس کے بھتیجے نذیر بن یزید بن خالد اور ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ تھے آزاد کیا، پھر دارالامارہ کی طرف آکر رباح اور اس کے بھائی عباس اور ابن مسلم بن عقبہ کو گرفتار کر کے قید کر دیا، اس کے بعد مسجد کی طرف آئے اور خطبہ دیا، جس میں منصور کی بری عادات اور افعال مجرمانہ کا ذکر کر کے لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف کے برتاؤ کا وعدہ کیا اور ان سے امداد کے خواہاں ہوئے۔ اس کے بعد مدینہ کے عہدہ قضا پر عثمان بن محمد بن خالد بن زہیر کو اسلحہ خانہ پر، عبدالعزیز بن مطلب بن عبداللہ مخزومی کو محکمہ پولیس پر عثمان بن عبیداللہ بن عبداللہ بن عمر بن خطاب کو مقرر کیا اور محمد بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے پاس ملامتانہ پیغام بھیجا کہ تم کیوں گھر میں چھپ کر بیٹھ رہے، محمد بن عبدالعزیز نے امداد کا وعدہ کیا، اسماعیل بن عبداللہ بن جعفر نے محمد مہدی کی بیعت نہیں کی، اسی طرح اور بھی چند شخصوں نے بیعت سے اعتراض کیا۔ محمد مہدی کے خروج اور رباح کے مقید ہونے کے نو دن بعد منصور کے پاس خبر پہنچی، وہ یہ سن کر سخت