کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 41
ہمدرد اوران کے حال سے باخبر ہیں ، ان خطوط میں لوگوں کی طرف سے اظہار عقیدت اور منصور کی برائیاں درج ہوتی تھیں اور خروج کے لیے ترغیب دی جاتی تھی، مدعا منصور کا یہ تھا کہ اس طرح ممکن ہے کہ محمد مہدی تک بھی کوئی جاسوس پہنچ جائے اور وہ گرفتار ہو سکیں ،یہ مدعا تو حاصل نہ ہوا، لیکن یہ ضرور ہوا کہ محمد مہدی کو ایسے خطوط کی اطلاع اپنے دوستوں کے ذریعہ پہنچتی رہی اور ان کو اپنے ہوا خواہوں اور فدائیوں کا اندازہ کرنے میں کسی قدر غلط فہمی ہو گئی، یعنی انہوں نے اپنی جماعت کا اندازہ حقیقت سے زیادہ کر لیا۔ ادھر ان کے بھائی ابراہیم نے بصرہ، کرمان، اصفہان، خراسان، موصل اور شام وغیرہ کا سفر کرکے جابجا اپنے داعی اور ہمدرد پیدا کر لیے اور منصور کے دارالخلافہ میں آکر ایک مرتبہ منصور کے دستر خوان پر کھانا کھا گئے اور منصور کو علم نہ ہوا، دوسری مرتبہ جب کہ منصور بغداد کی تعمیر کے معائنہ کو آیا تھا وہ منصور کے آدمیوں میں ملے جلے اس کے ساتھ موجود تھے، منصور کو جاسوسوں نے اطلاع دی کہ ابراہیم یہاں موجود ہیں مگر اس مرتبہ بھی منصور ان کو گرفتار نہ کرا سکا۔ اسی طرح محمد مہدی بھی حجاز میں رباح کی سخت ترین کوشش و تلاش کے باوجود اس کے ہاتھ نہ آئے، آخر ۱۴۵ھ میں ابوعون عامل خراسان نے منصور کے پاس ایک تحریر بھیجی کہ خراسان میں مخفی سازش بڑی تیز رفتاری سے ترقی کر رہی ہے، اور تمام اہل خراسان محمد مہدی کے خروج کا انتظار کر رہے ہیں ، منصور نے اس تحریر کو پڑھتے ہی محمد بن عبداللہ بن عمرو بن عثمان کو قید خانے سے بلا کر جلاد کے سپرد کیا اور ان کا سر اتروا کر خرسان بھیج دیا، اس سر کے ساتھ چند آدمی ایسے بھیجے گئے، جنہوں نے جا کر قسم کھا کر شہادت دی کہ یہ سر محمد بن عبداللہ کا ہے اور ان کی دادی کا نام فاطمہ بنت رسول اللہ تھا۔ اس طرح اہل خراسان کو دھوکہ دیا گیا کہ محمد مہدی قتل ہو گئے اور یہ انہی کا سر ہے۔ پھر منصور نے محمد بن ابراہیم بن حسن رضی اللہ عنہ کو زندہ ایک ستون میں چنوا دیا، اس کے بعد عبداللہ بن حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنہما اور علی بن حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو قتل کیا گیا، پھر ابراہیم بن حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنہما اور عباس بن حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنہما وغیرہ کو سخت اذیتوں کے ساتھ قتل کیا گیا۔ منصور کی یہ سنگدلی اور قساوت قلبی نہایت حیرت انگیز ہے۔ بنوامیہ علویوں کے مخالف اور دشمن تھے اور عباسی تو اب تک علویوں کے ساتھ شیروشکر چلے آتے تھے۔ بنوامیہ کی علویوں سے کوئی قریبی رشتہ داری نہ تھی لیکن عباسیوں اور علویوں کا تو بہت ہی قریبی رشتہ تھا، علویوں نے بنو امیہ کی سخت مخالفت کی تھی اور بارہا بنوامیہ کے خلاف تیروتلوار کا استعمال کر چکے تھے لیکن بنوعباس کے خلاف ابھی تک انہوں نے