کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 36
اور قتل کرنا شروع کیا اور بڑے بڑے سرداروں کو ذرا ذرا سے شبہ میں قتل کر کے تمام ملک میں ہلچل مچا دی، یہ خبر منصور کے پاس پہنچی کہ عبدالجبار عباسیوں کے خیر خواہوں کو قتل کیے ڈالتا ہے، منصور متامل تھا کہ عبدالجبار کو خراسان سے کس طرح بآسانی جدا کرے، کیونکہ اس کو اندیشہ تھا کہ کہیں وہ اعلانیہ باغی نہ ہو جائے ، آخر منصور نے عبدالجبار کو لکھا کہ لشکر خراسان کا ایک بڑا حصہ جہاد روم پر روانہ کر دو، مدعا یہ تھا کہ جب لشکر خراسان کا بڑا حصہ خراسان سے جدا ہو جائے گا تو پھر عبدالجبار کا معزول کرنا اور کسی دوسرے گورنر کا وہاں بھیج دینا آسان ہو گا۔ عبدالجبار نے جواباً لکھا کہ ترکوں نے فوج کشی شروع کر دی ہے اگر آپ لشکر خراسان کو دوسری طرف منتقل کر دیں گے تو مجھ کو خراسان کے نکل جانے کا اندیشہ ہے۔ یہ جواب دیکھ کر منصور نے عبدالجبار کو لکھا کہ خراسان کا ملک مجھ کو سب سے زیادہ عزیز ہے اور اس کو محفوظ رکھنا نہایت ضروری سمجھتا ہوں ، اگر ترکوں نے فوج کشی شروع کر دی ہے تو میں خراسان کی حفاظت کے لیے ایک لشکر عظیم روانہ کرتا ہوں ، تم کوئی فکر نہ کرو۔ اس تحریر کو پڑھ کر عبدالجبار نے فوراً منصور کو لکھا کہ خراسان کے ملک کی آمدنی اس قدر بارعظیم کی متحمل نہ ہو سکے گی، آپ کوئی بڑا لشکر نہ بھیجئے۔ یہ جواب دیکھ کر منصور کو یقین ہو گیا کہ عبدالجبار بغاوت پر آمادہ ہے، چنانچہ اس نے فوراً بلا توقف اپنے بیٹے مہدی کو ایک زبردست فوج دے کر روانہ کیا، مہدی نے رے میں پہنچ کر قیام کیا اور خازم بن خزیمہ کو عبدالجبار سے لڑنے کے لیے آگے بڑھنے کا حکم دیا، دونوں میں لڑائی اور سخت معرکہ آرائی ہوئی، آخر عبدالجبار شکست کھا کر بھاگا اور محشر بن مزاحم نے اس کو گرفتار کر کے خازم بن خزیمہ کی خدمت میں پیش کیا، خازم بن خزیمہ نے اس کو بالوں کا ایک جبہ پہنا کر دم کی طرف منہ کر کے اونٹ پر سوار کیا اور تشہیر کراکر مع اس کے گرفتار شدہ ہمراہیوں کے منصور کے پاس بھیج دیا، منصور نے ان لوگوں کو قید کر دیا اور ۱۴۲ھ میں عبدالجبار کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر قتل کرنے کا حکم دیا، عبدالجبار پر فتح پانے کے بعد مہدی نے خراسان کی حکومت اپنے ہاتھ میں لی اور ۱۴۹ھ تک وہ خراسان کا گورنر رہا۔ عیینہ بن موسیٰ بن کعب: موسیٰ بن کعب سندھ کا عامل تھا، اس کے بعد اس کا بیٹا عیینہ سندھ کا عامل مقرر کیا گیا تھا، اس نے سندھ میں منصور کے خلاف علم بغاوت بلند کیا، منصور کو یہ حال معلوم ہوا تو وہ دارالخلافہ سے بصرہ میں آیا اور بصرہ سے عمر بن حفص بن ابی صفوہ عتکی کو سندھ و ہند کی سند گورنری عطا کر کے جنگ عیینہ پر مامور کیا،