کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 35
جنگ تھے۔ اس موقع پر یہ بات قابل تذکرہ ہے کہ یزید بن ہبیرہ کے ساتھیوں میں معن بن زائدہ بھی تھا، اور جب ابن ہبیرہ کی لڑائیاں عباسیوں سے ہوئی ہیں تو معن بن زائدہ ابن ہبیرہ کے نامور سرداروں میں سے ایک تھا، معن بن زائدہ ابن ہبیرہ کے بعد دارالخلافہ ہاشمیہ میں آکر روپوش تھا اور منصور اس کی تلاش و جستجو میں تھا کہ معن بن زائدہ کو گرفتار کراکر قتل کرے، ان بدمذہب راوندیوں نے جب منصور کے محل کا محاصرہ کیا تو منصور پیادہ پا اپنے محل سے نکل آیا اور بلوائیوں کو مارنے اور ہٹانے لگا، منصور کے ساتھ بہت تھوڑے آدمی تھے اور حقیقت یہ تھی کہ اس وقت دارالخلافہ میں کوئی جمعیت اور طاقت ایسی موجود نہ تھی کہ ان بلوائیوں کی طاقت کا مقابلہ کرسکتی، منصور کے لیے یہ وقت نہایت ہی نازک تھا اور قریب تھا کہ دارالخلافہ اور اس کے ساتھ ہی خلافت اور منصور اپنی جان سے جائیں اور راوندیوں کا قبضہ ہو جائے، اس خطرناک حالت سے فائدہ اٹھانے میں معن بن زائدہ نے کوتاہی نہیں کی، وہ فوراً منصور کے پاس پہنچ گیا اور جاتے ہی بلوائیوں کو مارنے اور ہٹانے میں مصروف ہو گیا، اتنے میں اور لوگ بھی آکر منصور کے گرد جمع ہونے لگے لیکن معن بن زائدہ کے حملے بہت ہی زبردست اور کارگر ثابت ہو رہے تھے اور منصور اپنی آنکھ سے اس اجنبی شخص کی حیرت انگیز بہادری کو دیکھ رہا تھا، آخر معن بن زائدہ نے اس لڑائی میں سپہ سالاری کے فرائض خود بخود ادا کرنے شروع کر دیے اور نتیجہ یہ ہوا کہ سخت و شدید زور آزمائی کے بعد ان بلوائیوں کو شکست ہوئی، شہر کے آدمی بھی سب اٹھ کھڑے ہوئے اور تمام بلوائیوں کو قتل کر کے رکھ دیا۔ اس ہنگامے کے بعد منصور نے دریافت کیا کہ یہ کون شخص ہے جس نے اپنی پامردی و بہادری کے ذریعہ اس فتنہ کو فرو کرنے میں سب سے زیادہ کام کیا ہے، تب اس کو معلوم ہوا کہ یہ معن بن زائدہ ہے، منصور نے اس کو امان دے دی اور اس کے سابق جرموں کو معاف کر کے اس کی عزت و مرتبہ کو بڑھا دیا۔ ابوداؤد خالد بن ابراہیم ذہلی بلخ کا عامل اور آج کل خراسان کا گورنر تھا، اسی عرصہ یعنی ۱۴۰ھ میں اس کے لشکر میں بغاوت پھوٹی اور اہل لشکر نے مکان کامحاصرہ کر لیا، ابو داؤد مکان کی چھت پران باغیوں کے دیکھنے کے لیے چڑھا، اتفاق سے پاؤں پھسل کر گر پڑا اور اسی دن مر گیا، اس کے بعد اس کے سپہ سالار حصام نے اس بغاوت کو فرو کیا اور خراسان کی حکومت اپنے ہاتھ میں لے کر منصور کو اطلاع دی، منصور نے عبدالجبار بن عبدالرحمن کو گورنر خراسان بنا کر بھیجا۔ عبدالجبار کی بغاوت اور قتل: عبدالجبار نے خراسان کی حکومت اپنے ہاتھ میں لیتے ہی ابوداؤد کے عاملوں کو معزول و بے عزت