کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 33
تو اس کی زبان سے انا للّٰہ وانا الیہ راجعون نکل گیا، یہ بات منصور کو ناگوار گزری اور اس نے کہا کہ ابومسلم سے زیادہ کوئی تمہارا دشمن نہ تھا، پھر منصور نے جعفر بن حنظلہ کو بلوایا اور ابومسلم کے قتل کی نسبت مشورہ کیا، جعفر نے اس کے قتل کی رائے دی، منصور نے کہا، اللہ تعالیٰ تجھے جزائے خیر دے، اس کے بعد ابومسلم کی لاش کی طرف اشارہ کیا، جعفر نے ابومسلم کی لاش دیکھتے ہی کہا کہ ’’امیرالمومنین آج سے آپ کی خلافت شمار کی جائے گی، منصور مسکرا کر خاموش ہو گیا۔ ابونصر مالک بن ہیثم جس کو ابومسلم اپنا لشکر اور مال سپرد کر آیا تھا، حلوان سے بقصد خراسان ہمدان کی طرف روانہ ہو گیا پھر منصور کی خدمت میں واپس چلا آیا، منصور نے اس کو ملامت کی کہ تو نے ابومسلم کو میرے پاس آنے کے خلاف مشورہ دیا اس نے کہا کہ جب تک ابو مسلم کے پاس تھا اس کو نیک مشورہ دیا تھا اب آپ کے پاس آگیا ہوں تو آپ کی بہتری کے لیے کوشاں رہوں گا، منصور نے اس کو موصل کی حکومت پر بھیج دیا۔ خروج سنباد: ابومسلم کے قتل سے فارغ ہو کر بظاہر منصور کو اطمینان حاصل ہو چکا تھا لیکن اس کے بعد بھی منصور کے لیے مشکلات کا سلسلہ برابر جاری رہا، ابو مسلم کے ہمراہیوں میں ایک مجوسی فیروز نامی جو سنباد کے نام سے مشہور تھا وہ مسلمان ہو کر ابومسلم کی فوج میں شامل تھا، ابومسلم کے قتل کے بعد اس نے ابومسلم کے خون کا معاوضہ طلب کرنے کے لیے خروج کیا اور کوہستان کے لوگوں نے اس کا ساتھ دیا۔ سنباد نے نیشاپور اور رے پر قبضہ کر کے اس تمام مال و اسباب کو جو ابومسلم حج کے لیے روانہ ہوتے وقت رے اور نیشاپور میں چھوڑ گیا تھا، قبضہ کیا، سنباد نے لوگوں کے مال و اسباب کو لوٹا اور ان کو گرفتار کر کے باندی غلام بنایا اور مرتد ہو کر اعلان کیا کہ میں خانہ کعبہ کو منہدم کرنے جاتا ہوں ، نومسلم ایرانیوں کے لیے اس قدر تحریک کافی تھی، ان میں جو لوگ مذہب اسلام سے واقف نہ ہوئے تھے وہ یہ دیکھ کر کہ ہماری ہی قوم و ملک کا ایک شخص سلطنت اسلامی کے خلاف اٹھا ہے اس کے شریک ہو گئے۔ منصور نے جب اس فتنہ کا حال سنا تو اس نے سنباد کی سرکوبی کے لیے جمہور بن مرار عجلی کو مامور کیا، ہمدان ورے کے درمیان لڑائی ہوئی، جمہور نے سنباد کو شکست دی، قریباً سات ہزار آدمی سنباد کے ہمراہیوں میں سے مارے گئے، سنباد نے فرار ہو کر طبرستان میں پناہ لی، وہاں عامل طبرستان کے ایک خادم نے سنباد کو قتل کر دیا، منصور نے یہ خبر سن کر عامل طبرستان کو لکھا کہ سنباد کا مال و اسباب ہمارے پاس بھیج دو، اس نے مال و اسباب سے انکار کر دیا، منصور نے عامل طبرستان کی گوشمالی کے لیے فوج بھیجی،